مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 306

كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا سُلَيْمَانُ وَهُوَ الشَّيْبَانِيُّ أَبُوَ إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " كُنْتُ فِي الَّذِينَ بَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَاءَةَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ: بِمَا كُنْتُمْ تُنَادُونَ؟ قَالَ: بِأَرْبَعٍ: أَنْ لَا يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ وَلَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُريَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، قَالَ: كُنْتُ أُنَادِي بِهِنَّ حَتَّى مَحِلَ صَوْتِي "

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 306

اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل باب محرر بن ابی ہریرہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ براء ت کا اعلان کرنے کے لیے مکہ بھیجا تھا، ان کے بیٹے (محرر) نے انہیں کہا: تم کن چیزوں کا اعلان کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: چار چیزوں کا: جنت میں صرف نفس مومن ہی داخل ہوگا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں ہوگا، جس کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی عہد ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ انہوں نے بیان کیا: میں ان کا اعلان کیا کرتا تھا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
تشریح : فتح مکہ کے بعد ۹ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ سورۂ براء ت پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ سورۂ توبہ کی ابھی تک ابتدائی دس آیات نازل ہوئی تھیں۔ جن میں ہے: ﴿بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ() فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (التوبة: ۱۔۲) ’’اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے، ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا۔ پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک چلو، پھرو اور جان لو !کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔‘‘ (۱).... معلوم ہوا جنت میں ایمان کے بغیر داخلہ نہیں ہو سکتا۔ (۲).... مشرک کے لیے حج کرنا منع ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا﴾ (التوبة: ۲۸).... ’’اے ایمان والو! بے شک مشرک ناپاک ہیں، وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘ یہ ممانعت صرف مسجد حرام کے لیے ہے۔ یا دیگر مساجد کے لیے بھی ہے؟ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود ونصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا۔ لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا، تو اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مسجد حرام کے علاوہ باقی مسجدوں میں مشرک داخل ہو سکتے ہیں۔ (۳).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ستر پوشی طواف میں ضروری ہے، ننگے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔ (۴).... یہ اعلان براء ت ان مشرکین کے لیے تھا جن سے غیر مؤقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا جن سے چار مہینے سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا۔ لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا، ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دے دی گئی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی بصورت دیگر ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ عرب سے نکل جائیں۔
تخریج : بخاري، کتاب الصلاة، باب ما یستر من العورة، رقم: ۳۶۹۔ مسلم، کتاب الحج، باب لا یحج البیت مشرك، الخ، رقم : ۱۳۴۷۔ فتح مکہ کے بعد ۹ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ سورۂ براء ت پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ سورۂ توبہ کی ابھی تک ابتدائی دس آیات نازل ہوئی تھیں۔ جن میں ہے: ﴿بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ() فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (التوبة: ۱۔۲) ’’اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے، ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا۔ پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک چلو، پھرو اور جان لو !کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔‘‘ (۱).... معلوم ہوا جنت میں ایمان کے بغیر داخلہ نہیں ہو سکتا۔ (۲).... مشرک کے لیے حج کرنا منع ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا﴾ (التوبة: ۲۸).... ’’اے ایمان والو! بے شک مشرک ناپاک ہیں، وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘ یہ ممانعت صرف مسجد حرام کے لیے ہے۔ یا دیگر مساجد کے لیے بھی ہے؟ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود ونصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا۔ لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا، تو اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مسجد حرام کے علاوہ باقی مسجدوں میں مشرک داخل ہو سکتے ہیں۔ (۳).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ستر پوشی طواف میں ضروری ہے، ننگے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔ (۴).... یہ اعلان براء ت ان مشرکین کے لیے تھا جن سے غیر مؤقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا جن سے چار مہینے سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا۔ لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا، ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دے دی گئی اس کا مطلب یہ تھا کہ اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی بصورت دیگر ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ عرب سے نکل جائیں۔