كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، وَالْمُلَائِيُّ، قَالَا: نا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ((مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ))
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: جس نے اس گھر کا حج کیا اور اس نے کوئی فحش کام کیا،نہ کسی گناہ کا ارتکاب کیا،تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح اپنی پیدائش کے دن پاک تھا۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے حج کی فضیلت کا اثبات ہے کہ اس کی وجہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ فحش کام اور کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔
رفث کے حقیقی معنی ہیں، جماع کرنا۔ لیکن یہاں مراد فحش گوئی اور بے ہودگی ہے اور بیوی سے زبان کے ذریعے (زبانی) جنسی خواہش کی آرزو کرنا،جب اپنی بیوی کے ساتھ حج کے سفر کے دوران جنسی خواہش کی باتیں کرنا منع ہے تو اجنبی عورت کی طرف غلط نگاہ سے دیکھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
فسق سے مراد اللہ ذوالجلال کی نافرمانی اور لڑائی جھگڑا ہے۔ ایام حج میں بالخصوص ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ﴾ (البقرة: ۱۹۷).... ’’حج کے مہینے مقرر ہیں، اس لیے جو شخص ان میں حج لازم کرے، وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کر نے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔‘‘
مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا حج کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت ہے۔‘‘ (بخاري، رقم: ۱۷۷۳۔ مسلم، رقم: ۱۳۴۹)
تخریج :
بخاري: ۱۸۱۹۔ مسلم: ۱۳۵۰۔ سنن ترمذي: ۸۱۱۔ نسائي : ۲۶۲۷۔
مذکورہ حدیث سے حج کی فضیلت کا اثبات ہے کہ اس کی وجہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ فحش کام اور کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔
رفث کے حقیقی معنی ہیں، جماع کرنا۔ لیکن یہاں مراد فحش گوئی اور بے ہودگی ہے اور بیوی سے زبان کے ذریعے (زبانی) جنسی خواہش کی آرزو کرنا،جب اپنی بیوی کے ساتھ حج کے سفر کے دوران جنسی خواہش کی باتیں کرنا منع ہے تو اجنبی عورت کی طرف غلط نگاہ سے دیکھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔
فسق سے مراد اللہ ذوالجلال کی نافرمانی اور لڑائی جھگڑا ہے۔ ایام حج میں بالخصوص ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ﴾ (البقرة: ۱۹۷).... ’’حج کے مہینے مقرر ہیں، اس لیے جو شخص ان میں حج لازم کرے، وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کر نے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔‘‘
مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا حج کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت ہے۔‘‘ (بخاري، رقم: ۱۷۷۳۔ مسلم، رقم: ۱۳۴۹)