كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ صَاحِبُ الدَّسْتُوَائِيِّ , حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ صَفِيَّةَ ابْنَةِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِشَيْبَةَ أَنَّهَا أَبْصَرَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَهُوَ يَقُولُ: ((لَا يَقْطَعُ الْأَبْطَحَ إِلَّا الْأَشِدَّاءَ))
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
باب
شیبہ کی ام ولد رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہی تھیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ فرما رہے تھے: ’’ابطعح (وادی) کو دوڑ کر ہی عبور کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
تشریح :
ابطح سے مراد صفا مروہ کے درمیان کی وادی ہے، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے، وہاں کے مخصوص اعمال کے بعد مروہ کی طرف جانے کے لیے جب اترے اور آپ کے دونوں پاؤں وادی کے نشیب میں پڑے تو دوڑے حتی کہ آپ نشیب سے اوپر چڑھ گئے۔ (مسلم، رقم : ۱۲۱۸)
آج کل سعی کی جگہ کو ہموار کرکے پختہ راستہ بنا دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جو جگہ ہموار تھی اس کی حد بندی سبز نشانوں سے کر دی گئی ہے اور یہ نشان میلین اخضرین کہلاتے ہیں۔ ان کے درمیان دوڑنا چاہیے باقی جگہ پر عام رفتار سے چلنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی آدمی بیمار ہو یا کمزور ہو، دوڑ نہ سکے، تو عام رفتا رسے بھی سعی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو (یہ درست ہے کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس مقام پر) دوڑتے دیکھا ہے اور اگر (عام رفتار سے) چلوں تو (یہ بھی درست ہے کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں بڑی عمر کا بوڑھا آدمی ہوں (اس لیے دوڑنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔) (سنن ابن ماجة، رقم : ۲۹۸۸)
تخریج :
سنن ابن ماجة، کتاب المناسك، باب السعی بین الصفاء والمروة، رقم: ۲۹۸۷۔ قال الشیخ الالباني صحیح: مسند احمد: ۶؍ ۴۰۴۔
ابطح سے مراد صفا مروہ کے درمیان کی وادی ہے، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے، وہاں کے مخصوص اعمال کے بعد مروہ کی طرف جانے کے لیے جب اترے اور آپ کے دونوں پاؤں وادی کے نشیب میں پڑے تو دوڑے حتی کہ آپ نشیب سے اوپر چڑھ گئے۔ (مسلم، رقم : ۱۲۱۸)
آج کل سعی کی جگہ کو ہموار کرکے پختہ راستہ بنا دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جو جگہ ہموار تھی اس کی حد بندی سبز نشانوں سے کر دی گئی ہے اور یہ نشان میلین اخضرین کہلاتے ہیں۔ ان کے درمیان دوڑنا چاہیے باقی جگہ پر عام رفتار سے چلنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی آدمی بیمار ہو یا کمزور ہو، دوڑ نہ سکے، تو عام رفتا رسے بھی سعی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو (یہ درست ہے کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس مقام پر) دوڑتے دیکھا ہے اور اگر (عام رفتار سے) چلوں تو (یہ بھی درست ہے کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں بڑی عمر کا بوڑھا آدمی ہوں (اس لیے دوڑنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔) (سنن ابن ماجة، رقم : ۲۹۸۸)