كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَقِيَ مُوسَى آدَمَ عَلَيْهَمَا السَّلَامُ فَقَالَ: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ، فَأَخْرَجْتَ وَلَدَكَ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ لَهُ: يَا مُوسَى، أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَكَلَّمَكَ، فَأَنَا أَقْدَمُ أَمِ الذِّكْرُ؟ فَقَالَ: لَا بَلِ الذِّكْرُ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ".
ايمان کابیان
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے ملاقات کی تو کہا: آپ آدم ہیں، جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا، اور آپ نے اپنی اولاد کو جنت سے نکلوا دیا، انہوں نے ان سے فرمایا: اے موسیٰ! آپ وہی ہیں کہ اللہ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی سے آپ کو مختص فرمایا، پس میں پہلے ہوں یا ذکر؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ ذکر، پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بیٹا اپنے باپ سے اور چھوٹا کسی بڑے عالم سے اظہار حق یا علمی اضافہ کی غرض سے مناظرہ اور مباحثہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مناظرہ اور مباحثہ حقائق پر موقوف ہو نہ کہ آج کے مناظرے اور مباحثے جو سراسر تعصب و تشدد اور ایک دوسرے کو ہلکا اور نیچا کرنے کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مقصد سیدنا آدم علیہ السلام کو طعنہ دینا نہیں تھا کہ انہوں نے غلطی کیوں کی۔ حالانکہ ان کی غلطی تو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ هَدٰی﴾ (طٰہٰ: ۱۲۲) ’’پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔‘‘
بلکہ کہنے کا مقصد تھا کہ تمام انسانوں کو آپ کی وجہ سے مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔ ( بخاري، کتاب القدر، رقم : ۶۶۱۴)
تو یہ جواب دے کر سیدنا آدم علیہ السلام نے وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تقدیر میں پہلے ہی لکھے جا چکے تھے۔
معلوم ہوا تقدیر برحق اور ثابت ہے لیکن اکثر جاہل لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو تقدیر میں ہے وہ ہو کر رہے گا اور اس چیز کو مدنظر رکھ کر گناہ کرتے ہیں، حالانکہ انسان مجبور محض نہیں ہے اس کو دونوں (بری واچھی) راہیں دکھا کر مطالبہ اچھی راہ پر چلنے کا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّا ہَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِِمَّا شَاکِرًا وَّاِِمَّا کَفُوْرًا﴾ (الدھر: ۳)’’ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔‘‘
تقدیر اللہ کا کلی وپیشگی علم ہے اور اللہ کی رضا وخوشنودی اور چیز ہے۔ اگر چور کہے کہ میری قسمت میں چوری کرنا تھا تو اس کا ہاتھ پھر بھی کاٹ دیا جائے گا کہ اس کی تقدیر میں اس کا ہاتھ کاٹنا بھی لکھا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے تو وہ کہنے لگا: تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا۔ میرا کیا قصور ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔‘‘
تخریج :
بخاري، کتاب القدر، باب تحاج آدم وموسٰی عند الله، رقم : ۶۶۱۴۔ مسلم، کتاب القدر، باب کیفیة الخلق الآدم الخ، رقم: ۲۶۵۲۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۷۰۱۔ سنن ترمذي، رقم: ۲۱۳۴۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۴۸۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ بیٹا اپنے باپ سے اور چھوٹا کسی بڑے عالم سے اظہار حق یا علمی اضافہ کی غرض سے مناظرہ اور مباحثہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مناظرہ اور مباحثہ حقائق پر موقوف ہو نہ کہ آج کے مناظرے اور مباحثے جو سراسر تعصب و تشدد اور ایک دوسرے کو ہلکا اور نیچا کرنے کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مقصد سیدنا آدم علیہ السلام کو طعنہ دینا نہیں تھا کہ انہوں نے غلطی کیوں کی۔ حالانکہ ان کی غلطی تو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ هَدٰی﴾ (طٰہٰ: ۱۲۲) ’’پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔‘‘
بلکہ کہنے کا مقصد تھا کہ تمام انسانوں کو آپ کی وجہ سے مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔ ( بخاري، کتاب القدر، رقم : ۶۶۱۴)
تو یہ جواب دے کر سیدنا آدم علیہ السلام نے وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تقدیر میں پہلے ہی لکھے جا چکے تھے۔
معلوم ہوا تقدیر برحق اور ثابت ہے لیکن اکثر جاہل لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو تقدیر میں ہے وہ ہو کر رہے گا اور اس چیز کو مدنظر رکھ کر گناہ کرتے ہیں، حالانکہ انسان مجبور محض نہیں ہے اس کو دونوں (بری واچھی) راہیں دکھا کر مطالبہ اچھی راہ پر چلنے کا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّا ہَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِِمَّا شَاکِرًا وَّاِِمَّا کَفُوْرًا﴾ (الدھر: ۳)’’ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔‘‘
تقدیر اللہ کا کلی وپیشگی علم ہے اور اللہ کی رضا وخوشنودی اور چیز ہے۔ اگر چور کہے کہ میری قسمت میں چوری کرنا تھا تو اس کا ہاتھ پھر بھی کاٹ دیا جائے گا کہ اس کی تقدیر میں اس کا ہاتھ کاٹنا بھی لکھا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے تو وہ کہنے لگا: تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا۔ میرا کیا قصور ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔‘‘