مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 3

كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُقْرِئُ، نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُحَدِّثُكُمْ نَاسٌ بِأَحَادِيثَ لَمْ تَسْمَعُوهَا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 3

علم کی اہمیت و فضیلت کا بیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ لوگ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے سنا ہوگا نہ تمہارے آباء واجداد نے، پس تم ان لوگوں اور ان روایات سے اجتناب کرنا۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی بھی حدیث ہو اس کو اچھی طرح جانچ لینا چاہیے، بے سند اور موضوع روایات کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ۔)) ’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے۔‘‘(دیکھئے تفصیل کے لیے حدیث وشرح: ۲۶۳ ) محدثین، محققین کا ہم پر احسانِ عظیم ہے کہ ان لوگوں نے جہاں احادیث کی صحت وضعف کو واضح کیا، وہاں تحقیق کے اصول وضوابط بھی وضع کیے اور بعد والوں کے لیے آسانی پیدا کی۔ رحمہم اللہ علیہم اجمعین
تخریج : مسلم، باب النهي عن الروایة الخ، رقم: ۶۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۲۱۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۶۷۶۶۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی بھی حدیث ہو اس کو اچھی طرح جانچ لینا چاہیے، بے سند اور موضوع روایات کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ۔)) ’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے۔‘‘(دیکھئے تفصیل کے لیے حدیث وشرح: ۲۶۳ ) محدثین، محققین کا ہم پر احسانِ عظیم ہے کہ ان لوگوں نے جہاں احادیث کی صحت وضعف کو واضح کیا، وہاں تحقیق کے اصول وضوابط بھی وضع کیے اور بعد والوں کے لیے آسانی پیدا کی۔ رحمہم اللہ علیہم اجمعین