مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 292

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْمُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ قَالَتْ: كُنْتُ جَمَعْتُ مُويلَا لِي فَقُلْتُ لَأَضَعَنَّهُ فِي أَزْكَى مَوْضِعٍ عِنْدِي، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي بَعْضِ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَبْعَثُهَا، أَوْ أَشْتَرِي بِهِ نَسَمَةً مُسْلِمَةً فَأَعْتِقُهَا، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى الْمَسَاكِينِ، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى زَوْجٍ مَجْهُودٍ وَبَنِي أَخٍ يَتَامَى فِي حِجْرِي، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا، عَنْ ذَلِكَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ: ((مَنْ هَذِهِ؟)) قَالَتِ امْرَأَةُ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ. قَالَ: ((فَمَا جَاءَ بِهَا)) فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لَهُ ذَلِكَ. فَقَالَ: لِتَرُدُّهُ عَلَى زَوْجِهَا الْمَجْهُودِ وَبَنِي أَخِيهَا الْيَتَامَى يَكُنْ لَهَا أَجْرُهَا مَرَّتَيْنِ "

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 292

زکوٰۃ کے احکام ومسائل باب زینب ثقفیہ نے بیان کیا: میں اپنا مال جمع کیا کرتی تھی، تو میں نے کہا: میں اسے اپنے ہاں کسی بہترین جگہ پر رکھوں گی، میں نے اپنے دل میں کہا: اگر میں اسے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لشکر میں جسے آپ بھیجیں گے خرچ کر دوں، یا کسی مسلمان لونڈی کو خرید کر آزاد کر دوں یا اسے مسکینوں پر صدقہ کر دوں یا قلیل مال والے شوہر پر صدقہ کر دوں یا اپنی زیر کفالت یتیم بھتیجوں پر صدقہ کر دوں گی، پس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تاکہ اس کے متعلق ان سے دریافت کروں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو فرمایا: ’’عائشہ! یہ کون ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ابن ام عبد کی اہلیہ ہیں، فرمایا: ’’وہ کس لیے آئی ہیں؟‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا تذکرہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اسے اپنے قلیل مال والے شوہر اور اپنے یتیم بھتیجوں پر خرچ کرے، اس کے لیے دوگنا اجر ہوگا۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بیوی اپنے خاوند کو صدقہ دے سکتی ہے۔ لیکن خاوند بیوی بچوں پر جو خرچ کرے گا اس کا ثواب تو ملے گا جبکہ وہ صدقہ شمار نہیں ہوگا۔ کیونکہ بیوی بچوں پر خاوند کا خرچ کرنا ان کا حق ہے اور خاوند کا فرض ہے۔ لیکن بیوی کا اپنے خاوند پر خرچ کرنا اس کا حق نہیں ہے۔ معلوم ہوا عورت بھی مرد کی طرح ملکیت کا مستقل حق رکھ سکتی ہے وہ تجارت کے ذریعے سے جیسا کہ سیّدہ خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں اور کوئی بہتر ذریعہ ہو اس کی وجہ سے جیسا کہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا ایک ہنر مند خاتون تھیں۔ اور اسی طرح وہ وراثت کی بھی حق دار ہے۔ مولانا نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ کی بیوی ملکہ اور مالدار خاتون تھی۔ جمہور علماء امام شافعی، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا موقف ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۱۴۰۔ کتاب الام: ۲؍ ۶۹۔ المغنی: ۴؍۱۰۰) امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ مذکورہ بالا حدیث سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ جمہور کا کہنا ہے کہ اگر صدقہ سے مراد فرض زکاۃ نہ ہوتی تو پھر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر ان الفاظ سے باب باندھا ہے: ’’بَابٌ الزَّکَاةُ عَلَی الزَّوْجِ وَالْاِیْتَامِ فِی الْحِجْرِ‘‘.... ’’عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکاۃ دینا۔‘‘ لیکن یاد رہے یہ تب ہے جب خاوند یا اس کے زیر کفالت بچے قرآن میں موجود مصارف زکوٰۃ میں آئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اقارب مستحق لوگوں پر خرچ کرنا زیادہ ثواب ہے۔ بخاری شریف میں ہے: ((اَجْرُ الْقَرَابَةِ وَاَجْرُ الصَّدَقَةِ۔)) (بخاري، رقم : ۱۴۶۶) ’’ایک قرابت داری کا اجر اور دوسرا خیرات کرنے کا۔‘‘ (مزید دیکھئے احادیث: ۷۲۱۔ ۷۲۲۔ ۷۲۳۔ ۷۲۴۔ )
تخریج : طبراني کبیر: ۲۴؍ ۲۸۷: ۷۳۱۔ اسناده حسن لغیره۔ انظر: ۶۲۶۔ ۶۲۷۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا بیوی اپنے خاوند کو صدقہ دے سکتی ہے۔ لیکن خاوند بیوی بچوں پر جو خرچ کرے گا اس کا ثواب تو ملے گا جبکہ وہ صدقہ شمار نہیں ہوگا۔ کیونکہ بیوی بچوں پر خاوند کا خرچ کرنا ان کا حق ہے اور خاوند کا فرض ہے۔ لیکن بیوی کا اپنے خاوند پر خرچ کرنا اس کا حق نہیں ہے۔ معلوم ہوا عورت بھی مرد کی طرح ملکیت کا مستقل حق رکھ سکتی ہے وہ تجارت کے ذریعے سے جیسا کہ سیّدہ خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں اور کوئی بہتر ذریعہ ہو اس کی وجہ سے جیسا کہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا ایک ہنر مند خاتون تھیں۔ اور اسی طرح وہ وراثت کی بھی حق دار ہے۔ مولانا نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ کی بیوی ملکہ اور مالدار خاتون تھی۔ جمہور علماء امام شافعی، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا موقف ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ دے سکتی ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۱۴۰۔ کتاب الام: ۲؍ ۶۹۔ المغنی: ۴؍۱۰۰) امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ مذکورہ بالا حدیث سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ جمہور کا کہنا ہے کہ اگر صدقہ سے مراد فرض زکاۃ نہ ہوتی تو پھر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر ان الفاظ سے باب باندھا ہے: ’’بَابٌ الزَّکَاةُ عَلَی الزَّوْجِ وَالْاِیْتَامِ فِی الْحِجْرِ‘‘.... ’’عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکاۃ دینا۔‘‘ لیکن یاد رہے یہ تب ہے جب خاوند یا اس کے زیر کفالت بچے قرآن میں موجود مصارف زکوٰۃ میں آئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اقارب مستحق لوگوں پر خرچ کرنا زیادہ ثواب ہے۔ بخاری شریف میں ہے: ((اَجْرُ الْقَرَابَةِ وَاَجْرُ الصَّدَقَةِ۔)) (بخاري، رقم : ۱۴۶۶) ’’ایک قرابت داری کا اجر اور دوسرا خیرات کرنے کا۔‘‘ (مزید دیکھئے احادیث: ۷۲۱۔ ۷۲۲۔ ۷۲۳۔ ۷۲۴۔ )