كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا مُحَمَّدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ سَوَاءً
ايمان کابیان
باب
ایک دوسری سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سابق کے مانند مروی ہے۔
تشریح :
ایک حدیث میں ہے لج سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو وہ بلا حساب اور عذاب، جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور ہر ہزار کے ساتھ (مزید) ستر ہزار آدمی جنت میں داخل فرمائے گا اور تین لپ بھرے ہوئے میرے رب کے اور بھی جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ ( سنن ترمذي، ابواب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی الشفاعة )
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ کی فضیلت واضح ہے کہ انچاس لاکھ ستر ہزار افراد بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ بعض روایات میں ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ بالا روایت سنا کر گھر تشریف لے گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ان ستر ہزار کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے، بعض نے کہا: یہ وہ ہوں گے جو اسلام پر پیدا ہوئے اور انہوں نے شرک نہیں کیا۔ بعض نے کہا: جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا ہے یہ وہ لوگ ہیں۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ ہیں: ((لَا یَکْتُوْوْنَ وَلَا یَسْتَرِقُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ)) ( بخاري، رقم :۶۵۴۱) ’’جو داغ نہیں لگواتے، دم جھاڑ نہیں کرواتے، شگون نہیں لیتے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ حدیث مبارکہ میں بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہونے والوں کی نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہیں ہوتے اور ان کا دم، داغ پر بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہیں کہ اس دوائی دم میں تب شفا ہوگی جب اللہ ذوالجلال نے دی یعنی اللہ پر پختہ یقین ہونا چاہیے۔
مذکورہ حدیث سے سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی اثبات ہے کہ وہ قطعی طور پر بغیر حساب وکتاب جنت میں جائیں گے جو دوسرے صحابی کھڑے ہوئے۔ وہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے تو فرمایا: ’’عکاشہ اس میں تم پر بازی لے گیا‘‘ مطلب یہ کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی جو اب نکل چکی ہے۔
تخریج :
ایضاً۔
ایک حدیث میں ہے لج سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو وہ بلا حساب اور عذاب، جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور ہر ہزار کے ساتھ (مزید) ستر ہزار آدمی جنت میں داخل فرمائے گا اور تین لپ بھرے ہوئے میرے رب کے اور بھی جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ ( سنن ترمذي، ابواب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی الشفاعة )
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ کی فضیلت واضح ہے کہ انچاس لاکھ ستر ہزار افراد بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ بعض روایات میں ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ بالا روایت سنا کر گھر تشریف لے گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں ان ستر ہزار کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے، بعض نے کہا: یہ وہ ہوں گے جو اسلام پر پیدا ہوئے اور انہوں نے شرک نہیں کیا۔ بعض نے کہا: جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا ہے یہ وہ لوگ ہیں۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ ہیں: ((لَا یَکْتُوْوْنَ وَلَا یَسْتَرِقُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ)) ( بخاري، رقم :۶۵۴۱) ’’جو داغ نہیں لگواتے، دم جھاڑ نہیں کرواتے، شگون نہیں لیتے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ حدیث مبارکہ میں بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہونے والوں کی نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہیں ہوتے اور ان کا دم، داغ پر بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہیں کہ اس دوائی دم میں تب شفا ہوگی جب اللہ ذوالجلال نے دی یعنی اللہ پر پختہ یقین ہونا چاہیے۔
مذکورہ حدیث سے سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بھی اثبات ہے کہ وہ قطعی طور پر بغیر حساب وکتاب جنت میں جائیں گے جو دوسرے صحابی کھڑے ہوئے۔ وہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے تو فرمایا: ’’عکاشہ اس میں تم پر بازی لے گیا‘‘ مطلب یہ کہ وہ قبولیت کی گھڑی تھی جو اب نکل چکی ہے۔