مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 288

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَخَالَةٌ لِي - وَهِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ - لِنُبَايِعَهُ، فَرَأَى عَلَيْهَا أُسْوَارًا مِنْ ذَهَبٍ، وَخَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: ((أَتُحِبِّينَ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ أُسْوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟)) فَنَزَعَتْهُمَا مِنْ يَدَيْهَا، فَرَمَتْ بِهِمَا، فَمَا أَدْرِي فَمَنْ أَخَذَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تَجْعَلُ إِحْدَاكُنَّ لَوْنَيْنِ أَوْ حَلَقَتَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ ثُمَّ تُغْلِيهِ بِعَنْبَرٍ أَوْ وَرْسٍ أَوْ زَعْفَرَانَ "

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 288

زکوٰۃ کے احکام ومسائل باب سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اپنی خالہ کے ساتھ جو کہ نئی نویلی دلہن تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں، آپ نے اسے سونے کے دو کنگن اور انگوٹھیاں پہنے ہوئے دیکھا، تو اسے فرمایا: ’’کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے اور آگ کی انگوٹھیوں کے ساتھ تمہیں داغ دے؟‘‘ پس اس نے فوراً انہیں ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا، معلوم نہیں کہ کس نے انہیں اٹھایا، پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی چاندی کی دو بالیاں نہیں بنا لیتی پھر عبیر یا ورس یا زعفران کا اس پر رنگ چڑھا لے؟‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث میں ہے کیا تو پسند کرتی ہے کہ تجھے آگ کے کنگن پہنائے جائیں؟ تو یہ اس وقت ہے جب زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ جیسا کہ ایک عورت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کے ہمراہ اس کی بیٹی بھی تھی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا، ’’کیا تو اس کی زکاۃ دیتی ہے‘‘؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟ یہ سن کر اس خاتون نے دونوں کنگن پھینک دیے۔ ( سنن ابي داود، کتاب الزکاۃ : ۱۵۶۳) یہ بھی معلوم ہوا زیورات سے زکاۃ ادا کرنی چاہیے۔ زکاۃ ادا نہ کی جائے تو یہ کام عذابِ الٰہی کا باعث ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ() یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ ﴾ (البقرۃ: ۳۴،۳۵) ’’اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الزکاة، باب الکنز ما هو؟ وزکاة الحلی، رقم: ۱۵۶۳۔ سنن ترمذي، ابواب الزکاة، باب زکاة الحلي، رقم: ۶۳۷۔ قال الشیخ الالباني : حسن۔ نسائي، رقم: ۲۴۷۹۔ مسند احمد: ۶؍ ۳۱۵۔ مذکورہ حدیث میں ہے کیا تو پسند کرتی ہے کہ تجھے آگ کے کنگن پہنائے جائیں؟ تو یہ اس وقت ہے جب زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ جیسا کہ ایک عورت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کے ہمراہ اس کی بیٹی بھی تھی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا، ’’کیا تو اس کی زکاۃ دیتی ہے‘‘؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟ یہ سن کر اس خاتون نے دونوں کنگن پھینک دیے۔ ( سنن ابي داود، کتاب الزکاۃ : ۱۵۶۳) یہ بھی معلوم ہوا زیورات سے زکاۃ ادا کرنی چاہیے۔ زکاۃ ادا نہ کی جائے تو یہ کام عذابِ الٰہی کا باعث ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ() یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ ﴾ (البقرۃ: ۳۴،۳۵) ’’اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘