مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 282

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَتَصَدَّقُ؟ قَالَ: وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَأْمُلُ الْعَيْشَ وَتَخْشَى الْفَقْرَ، وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ عِنْدَ نَحْرِكَ، قُلتُ: مَالِي لِفُلَانٍ وَفُلَانٍ وَهُوَ لَهُمْ ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 282

زکوٰۃ کے احکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس طرح صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبکہ تم صحت مند ہو اور بخیل بھی ہو، زندگی کی امید ہو اور فقر کا اندیشہ ہو، اور تم اس قدر التوا کا شکار نہ ہو حتیٰ کہ جب تمہاری سانس حلق تک پہنچ جائے تو تم کہو: میرا مال فلاں کے لیے اور فلاں کے لیے، وہ تو ان کا ہو چکا ہے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث میں یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ جب تم تندرست اور تمہارے دلوں میں مال کی محبت بھی ہو اس وقت صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے، اس وقت صدقہ کرنا مشکل تو ہوتا ہے کیونکہ مستقبل کی سوچ ہوتی ہے، لیکن جب موت قریب ہو اس وقت انسان کو مستقبل کے متعلق خیالات نہیں ہوتے تو انسان صدقہ کر دیتا ہے۔ لیکن شریعت نے صحت اور تندرستی کے زمانے میں صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ وَ الْکٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (البقرة: ۲۵۴).... ’’اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ ہی شفاعت۔‘‘ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا: ﴿وَاَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ﴾ (المنافقون: ۱۰) ’’اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے۔‘‘ اللہ ذوالجلال آگے فرماتے ہیں: ﴿فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا اَخَّرْتَنِی اِِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِنْ الصَّالِحِیْنَ﴾ (المنافقون: ۱۰) .... ’’تو کہنے لگے، اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں۔‘‘ معلوم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تأخیر مرتے وقت پچھتاوے کا سبب بن جائے، اس وقت کا پچھتانا کسی بھی کام نہیں آئے گا۔ شریعت نے مرتے وقت سارے مال کی وصیت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور نہ ہی سارا مال اللہ ذوالجلال کے راستے میں اس وقت خرچ کرنا جائز ہے صرف اپنے مال کا ثلث صدقہ یا وصیت کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عامر بن سعد رحمہ اللہ نے اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا: فتح مکہ کے سال میں بیمار ہوگیا حتیٰ کہ موت کے کنارے پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا مال بہت زیادہ ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: آدھا؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: تہائی۔ فرمایا: ’’تہائی (جائز ہے) اور تہائی بھی زیادہ ہے، تیرا اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑنا انہیں مفلس چھوڑ جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ (بخاري، رقم : ۶۷۳۳۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۲۷۰۸)
تخریج : بخاري، کتاب الزکاة، باب ای الصدقة الخ، رقم: ۱۴۱۹۔ مسلم، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة الخ، رقم: ۱۰۳۲۔ سنن ابي داود، رقم: ۲۸۶۵۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۳۳۱۲۔ مذکورہ حدیث میں یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ جب تم تندرست اور تمہارے دلوں میں مال کی محبت بھی ہو اس وقت صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے، اس وقت صدقہ کرنا مشکل تو ہوتا ہے کیونکہ مستقبل کی سوچ ہوتی ہے، لیکن جب موت قریب ہو اس وقت انسان کو مستقبل کے متعلق خیالات نہیں ہوتے تو انسان صدقہ کر دیتا ہے۔ لیکن شریعت نے صحت اور تندرستی کے زمانے میں صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ وَ الْکٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (البقرة: ۲۵۴).... ’’اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ ہی شفاعت۔‘‘ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا: ﴿وَاَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ﴾ (المنافقون: ۱۰) ’’اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے۔‘‘ اللہ ذوالجلال آگے فرماتے ہیں: ﴿فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا اَخَّرْتَنِی اِِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِنْ الصَّالِحِیْنَ﴾ (المنافقون: ۱۰) .... ’’تو کہنے لگے، اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں۔‘‘ معلوم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تأخیر مرتے وقت پچھتاوے کا سبب بن جائے، اس وقت کا پچھتانا کسی بھی کام نہیں آئے گا۔ شریعت نے مرتے وقت سارے مال کی وصیت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور نہ ہی سارا مال اللہ ذوالجلال کے راستے میں اس وقت خرچ کرنا جائز ہے صرف اپنے مال کا ثلث صدقہ یا وصیت کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عامر بن سعد رحمہ اللہ نے اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا: فتح مکہ کے سال میں بیمار ہوگیا حتیٰ کہ موت کے کنارے پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا مال بہت زیادہ ہے اور میری وارث میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: آدھا؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا: تہائی۔ فرمایا: ’’تہائی (جائز ہے) اور تہائی بھی زیادہ ہے، تیرا اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑنا انہیں مفلس چھوڑ جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ (بخاري، رقم : ۶۷۳۳۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۲۷۰۸)