مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 280

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ الْمِسْكِينُ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ سَوَاءً، قَالَ: شَكَّ شُعْبَةُ فِي قَوْلِهِ: أَوِ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 280

زکوٰۃ کے احکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسکین وہ نہیں۔‘‘ پس راوی نے حدیث سابق کے مثل روایت کیا: راوی نے کہا کہ شعبہ کو ’’کھجور اور دو کھجوروں میں شک ہوا۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا حقیقی مسکین وہ ہے جس کا مال اس کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا اور حیا کے سبب لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا اور اپنے آپ کو ایسا باور بھی نہیں کرواتا کہ لوگ اس کے ساتھ مالی معاونت کریں۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے ہاں مسکین طواف السائل یعنی گھوم پھر کر مانگنے والے کے نام سے متعارف تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مطلع فرمایا کہ مسکین تو وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرے اور نہ اپنے آپ کو ایسا باور کرائے کہ لوگ اسے (کچھ) مال عنایت کریں۔ نیز فرماتے ہیں: سائل سوال کرنے کے سبب اپنی کفایت کے لیے جمع کر لیتا ہے اور اس سے مسکینی ساقط ہو جاتی ہے، اس کے برعکس جو شخص سوال کرتا ہے نہ اپنے آپ کو ایسا باور کراتا ہے کہ لوگ اسے کچھ دیں تو ایسے شخص سے محتاجی زائل نہیں ہوتی۔‘‘ (شرح السنة: ۶؍ ۸۷) قرآن مجید فرقان حمید میں ہے:﴿لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰهُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ (البقرۃ: ۲۷۳) ’’صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دئیے گئے جو زمین میں چل پھر نہیں سکتے نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ پیشہ ور گداگروں کی بجائے مہاجرین دین کے طلبا، علما اور سفید پوش ضرورت مندوں کاپتہ چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خود داری کے خلاف ہے۔
تخریج : السابق۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا حقیقی مسکین وہ ہے جس کا مال اس کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا اور حیا کے سبب لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا اور اپنے آپ کو ایسا باور بھی نہیں کرواتا کہ لوگ اس کے ساتھ مالی معاونت کریں۔ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے ہاں مسکین طواف السائل یعنی گھوم پھر کر مانگنے والے کے نام سے متعارف تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مطلع فرمایا کہ مسکین تو وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرے اور نہ اپنے آپ کو ایسا باور کرائے کہ لوگ اسے (کچھ) مال عنایت کریں۔ نیز فرماتے ہیں: سائل سوال کرنے کے سبب اپنی کفایت کے لیے جمع کر لیتا ہے اور اس سے مسکینی ساقط ہو جاتی ہے، اس کے برعکس جو شخص سوال کرتا ہے نہ اپنے آپ کو ایسا باور کراتا ہے کہ لوگ اسے کچھ دیں تو ایسے شخص سے محتاجی زائل نہیں ہوتی۔‘‘ (شرح السنة: ۶؍ ۸۷) قرآن مجید فرقان حمید میں ہے:﴿لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰهُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ (البقرۃ: ۲۷۳) ’’صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دئیے گئے جو زمین میں چل پھر نہیں سکتے نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ پیشہ ور گداگروں کی بجائے مہاجرین دین کے طلبا، علما اور سفید پوش ضرورت مندوں کاپتہ چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خود داری کے خلاف ہے۔