كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِ سَأَلَ عَنْهُ، فَإِنْ قِيلَ: هَدِيَّةٌ، أَكَلَ، وَإِنْ قِيلَ: صَدَقَةٌ، قَالَ: كُلُوا وَلَمْ يَأْكُلْ
زکوٰۃ کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کے گھر کا کھانا پیش کیا جاتا تو آپ اس کے متعلق پوچھتے، اگر بتایا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ تناول فرماتے، اور اگر کہا جاتا کہ صدقہ ہے تو پھر آپ فرماتے: ’’کھاؤ‘‘ اور آپ تناول نہ فرماتے۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہ کھاتے تھے، کیونکہ آپ کی ذات اور آپ کی آل پر صدقہ حلال نہ تھا۔ کیونکہ یہ لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تھا کہ اس کا نبی اور نبی کی آل صدقہ استعمال میں لائیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں تھیں۔ (مزید دیکھئے حدیث وشرح: ۵۰۔ ۵۱)
تخریج :
بخاري، کتاب اللقطة، باب اذا وجد تمرة في الطریق: رقم:۲۴۳۲۔ مسلم، کتاب الزکاة، باب قبول النبي الهدیة ورده الصدقة: رقم:۱۰۷۷۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۰۶۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہ کھاتے تھے، کیونکہ آپ کی ذات اور آپ کی آل پر صدقہ حلال نہ تھا۔ کیونکہ یہ لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تھا کہ اس کا نبی اور نبی کی آل صدقہ استعمال میں لائیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں تھیں۔ (مزید دیکھئے حدیث وشرح: ۵۰۔ ۵۱)