كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ
زکوٰۃ کے احکام ومسائل
باب
محمد بن زیاد نے بیان کیا، میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے (ایک کھجور) لے لی، پس حدیث سابق کے مانند ذکر کیا۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔ آل محمد میں بنوعبدالمطلب، بنو ہاشم، اور بنو ہاشم میں سیدنا عباس، سیدنا عقیل، سیدنا حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((اِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا وَاِنَّ مَوَالِیْ الْقَوْمِ مِنْ اَنْفُسِهِمْ)).... ’’بیشک ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور قوم کے آزاد کردہ غلام انہی میں سے ہوتے ہیں۔‘‘
اور اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پوچھتے کہ یہ صدقہ ہے یا ہدیہ؟ اگر جواب میں یہ کہا جاتا: صدقہ ہے، تو آپؐ صحابہ سے فرماتے: کھاؤ اور اگر جواب میں کہا جاتا، ہدیہ ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی تناول فرماتے۔ (دیکھئے حدیث: ۶۴)
محدثین کہتے ہیں: صدقہ خواہ نفلی ہو یا فرضی یہ دونوں ہی حرام تھے۔ فرضی صدقہ میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، البتہ نفلی صدقہ کی حرمت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ نفلی صدقہ بھی حرام تھا۔ (دیکھئے طرح التثریب: ۴؍ ۳۵)
صدقات سے بچنے میں کئی مصلحتیں تھی۔ مذکورہ احادیث میں ہے: ((کَخْ کَخْ)) کاف کی ربر کے ساتھ۔
دوسری روایات میں ہے کہ: ((لَوْلَا اَنِّیْ اَخَافُ اَنْ تَّکُوْنَ مِنَ الصَّدَقَةِ لِأَٔکَلْتُهَا)) ( بخاري، رقم :۲۲۵۵۔ مسلم، رقم : ۱۰۷۱) ’’اگر مجھے اس کے صدقے میں سے ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں یقینا اسے کھا لیتا۔‘‘
معلوم ہوا جس چیز کے جائز ہونے میں شک ہو اس چیز سے ایک مسلمان کو بچنا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا مشکوک اور مشتبہ اشیاء سے بچنا تقویٰ کی علامت ہے۔
تخریج :
السابق۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔ آل محمد میں بنوعبدالمطلب، بنو ہاشم، اور بنو ہاشم میں سیدنا عباس، سیدنا عقیل، سیدنا حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ((اِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا وَاِنَّ مَوَالِیْ الْقَوْمِ مِنْ اَنْفُسِهِمْ)).... ’’بیشک ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور قوم کے آزاد کردہ غلام انہی میں سے ہوتے ہیں۔‘‘
اور اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پوچھتے کہ یہ صدقہ ہے یا ہدیہ؟ اگر جواب میں یہ کہا جاتا: صدقہ ہے، تو آپؐ صحابہ سے فرماتے: کھاؤ اور اگر جواب میں کہا جاتا، ہدیہ ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی تناول فرماتے۔ (دیکھئے حدیث: ۶۴)
محدثین کہتے ہیں: صدقہ خواہ نفلی ہو یا فرضی یہ دونوں ہی حرام تھے۔ فرضی صدقہ میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، البتہ نفلی صدقہ کی حرمت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ نفلی صدقہ بھی حرام تھا۔ (دیکھئے طرح التثریب: ۴؍ ۳۵)
صدقات سے بچنے میں کئی مصلحتیں تھی۔ مذکورہ احادیث میں ہے: ((کَخْ کَخْ)) کاف کی ربر کے ساتھ۔
دوسری روایات میں ہے کہ: ((لَوْلَا اَنِّیْ اَخَافُ اَنْ تَّکُوْنَ مِنَ الصَّدَقَةِ لِأَٔکَلْتُهَا)) ( بخاري، رقم :۲۲۵۵۔ مسلم، رقم : ۱۰۷۱) ’’اگر مجھے اس کے صدقے میں سے ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں یقینا اسے کھا لیتا۔‘‘
معلوم ہوا جس چیز کے جائز ہونے میں شک ہو اس چیز سے ایک مسلمان کو بچنا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا مشکوک اور مشتبہ اشیاء سے بچنا تقویٰ کی علامت ہے۔