كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ فِی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الْقِصَاصِ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْهِمُ الدِّیَّةُ، فَقَالَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِهٰذِهِ الْاُمَّةِ: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ﴾ حَتَّی بَلَغَ: ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْعِ شَیٌٔ﴾ قَالَ: عَفُوْہٗ: قُبُوْلُهٗ الدِّیَّةِ، فَاِتَّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ، قَالَ: یَطْلُبُهٗ بِمَعْرُوْفٍ، وَیُوْصِیْ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ۔ زَادَ عَنْ سُفْیَانُ، قَالَ: ﴿ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ﴾۔ قَالَ: اَخْذُ الدِّیَّةِ مِنَ الْعَمَدِ
جنازے کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بنی اسرائیل میں قصاص تھا، لیکن ان میں دیت نہیں تھی، تو اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے فرمایا: ’’قتل کے بارے میں تم پر قصاص لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے میں آزاد۔‘‘ حتیٰ کہ یہاں تک آیت پہنچی: ’’جسے اپنے بھائی کی طرف سے کچھ معافی؍ رعایت مل جائے۔‘‘ راوی نے بیان کیا: اس کا معاف کرنا اس کا دیت قبول کرنا ہے۔ پس معروف (بھلے طریقے) سے اتباع ومطالبہ کرنا ہے، فرمایا: وہ اس سے معروف طریقے سے مطالبہ کرے گا اور اس کے لیے احسان کی وصیت کرے گا۔ سفیان کے حوالے سے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ’’یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف ورحمت ہے۔‘‘ اس سے مراد ہے: قتل عمد کی دیت قبول کرنا۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے اور اللہ ذوالجلال نے اس امت پر اپنا خاص فضل کیا ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کردیتا تو قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کردیا جاتا۔ لیکن امت محمدیہ پر اللہ ذوالجلال نے یہ احسان کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء کو حق حاصل ہے، چاہے تو وہ معاف کردیں یا دیت وصول کرلیں یا پھر قصاص لے لیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (البقرة:۱۷۸)
’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے، ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے۔ اور اچھے طریقے سے فدیہ وارث کو ادا کرے، تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
تخریج :
بخاري، کتاب التفسیر، باب یایها الذین امنوا کتب علیکم القصاص الخ، رقم: ۴۴۹۸۔ سنن نسائي، کتاب القسامة، باب تاویل قوله عزوجل فمن عفی له الخ، رقم: ۴۷۸۲۔ سنن کبری بیهقی: ۸؍ ۵۲۔
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے اور اللہ ذوالجلال نے اس امت پر اپنا خاص فضل کیا ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ تھا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کردیتا تو قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کردیا جاتا۔ لیکن امت محمدیہ پر اللہ ذوالجلال نے یہ احسان کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء کو حق حاصل ہے، چاہے تو وہ معاف کردیں یا دیت وصول کرلیں یا پھر قصاص لے لیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (البقرة:۱۷۸)
’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے، ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے۔ اور اچھے طریقے سے فدیہ وارث کو ادا کرے، تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘