كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُؤَمَّلُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، قَالَ: بَدَلَ الرِّجْلَيْنِ الْيَدَيْنِ
ايمان کابیان
باب
حماد بن سلمہ نے اس حدیث کو اسناد سے اسی مثل روایت کیا ہے، اور انہوں نے ’’پاؤں‘‘ کے بجائے ’’ہاتھوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
تشریح :
ایک دوسری حدیث میں مذکورہ حدیث کی وضاحت ملتی ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر آدم زاد کے لیے زنا سے اس کا حصہ (لکھا گیا) ہے‘‘ اور مذکورہ قصہ بیان کیا، ’’کہا: ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کو پکڑنا ہے۔ پاؤں زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کی طرف چلنا ہے۔ منہ زنا کرتا ہے اور اس کا بدکاری کا بوسہ لینا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، رقم : ۲۱۵۳)
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’کان زنا کرتے ہیں اور ان کا بدکاری سننا ہے۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۱۵۴)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم پر اس کے زنا کا ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض ان میں حقیقی زنا کرتے ہیں، یعنی اپنی شرمگاہ کو دوسرے کی شرمگاہ میں داخل کرتے ہیں۔ (جو حرام ہے)
اور بعض مجازی زنا کرتے ہیں یعنی غیر محرم اشیاء کو دیکھتے ہیں یا لمس کرتے ہیں یا پھر انہیں سنتے ہیں، مثال کے طور پر کسی ناواقف (غیرمحرم) عورت کو چھونا، یا اسے بوسہ دینا، چومنا یا اس کے پاس زنا کی غرض سے چل کر جانا، یا اسے دیکھنا اور (اسی طرح) دل میں کوئی (برا عزم) خیال سوچنا وغیرہ یہ سب مجازی زنا کی اقسام ہیں۔ (شرح مسلم للنووی: ص۱۸۸)
گناہ کی دو اقسام ہیں: کبیرہ اور صغیرہ۔ صغیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر نہیں کی اور کبیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر کر دی ہے۔ صغیرہ گناہ عام نیکی سے معاف ہو جاتے ہیں تاہم شریعت نے صغیرہ گناہ کرنے سے بھی روکا ہے، بعض اوقات یہ صغیرہ گناہ، کبیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھا جائے اور عادت بنا لی جائے۔ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہیے۔
اعضائے جسم کو زنا سے تعبیر کرنا، اس سے زنا کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کا انجام انتہائی برا ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّهٗ کَانَ فَاحِشَةً وَّسَآءَ سَبِیْلًا﴾ (الاسراء:۳۲) ’’اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی کا کام اور بُرا راستہ ہے۔‘‘
تخریج :
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۴۱۵۰۔ صحیح ترغیب وترهیب، رقم : ۱۹۰۴۔
ایک دوسری حدیث میں مذکورہ حدیث کی وضاحت ملتی ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر آدم زاد کے لیے زنا سے اس کا حصہ (لکھا گیا) ہے‘‘ اور مذکورہ قصہ بیان کیا، ’’کہا: ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کو پکڑنا ہے۔ پاؤں زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کی طرف چلنا ہے۔ منہ زنا کرتا ہے اور اس کا بدکاری کا بوسہ لینا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، رقم : ۲۱۵۳)
ایک اور روایت میں ہے کہ ’’کان زنا کرتے ہیں اور ان کا بدکاری سننا ہے۔‘‘ ( سنن ابي داود، رقم : ۲۱۵۴)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم پر اس کے زنا کا ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض ان میں حقیقی زنا کرتے ہیں، یعنی اپنی شرمگاہ کو دوسرے کی شرمگاہ میں داخل کرتے ہیں۔ (جو حرام ہے)
اور بعض مجازی زنا کرتے ہیں یعنی غیر محرم اشیاء کو دیکھتے ہیں یا لمس کرتے ہیں یا پھر انہیں سنتے ہیں، مثال کے طور پر کسی ناواقف (غیرمحرم) عورت کو چھونا، یا اسے بوسہ دینا، چومنا یا اس کے پاس زنا کی غرض سے چل کر جانا، یا اسے دیکھنا اور (اسی طرح) دل میں کوئی (برا عزم) خیال سوچنا وغیرہ یہ سب مجازی زنا کی اقسام ہیں۔ (شرح مسلم للنووی: ص۱۸۸)
گناہ کی دو اقسام ہیں: کبیرہ اور صغیرہ۔ صغیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر نہیں کی اور کبیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر کر دی ہے۔ صغیرہ گناہ عام نیکی سے معاف ہو جاتے ہیں تاہم شریعت نے صغیرہ گناہ کرنے سے بھی روکا ہے، بعض اوقات یہ صغیرہ گناہ، کبیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھا جائے اور عادت بنا لی جائے۔ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہیے۔
اعضائے جسم کو زنا سے تعبیر کرنا، اس سے زنا کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کا انجام انتہائی برا ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّهٗ کَانَ فَاحِشَةً وَّسَآءَ سَبِیْلًا﴾ (الاسراء:۳۲) ’’اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی کا کام اور بُرا راستہ ہے۔‘‘