مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 260

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، نا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَهُ، فَقَالَ: ((اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي)) ، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ، فَقَالَ: ((أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 260

جنازے کے احکام ومسائل باب سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے تین بار یا پانچ بار یا اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے زیادہ بار غسل دینا اور آخری بار غسل دیتے وقت پانی میں کافور یا تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ پس جب ہم فارغ ہوگئیں تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا ازار ہماری طرف پھینک دیا اور فرمایا: ’’اسے اس کے جسم کے ساتھ لپیٹ دو۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اگر میت عورت ہے تو اس کو غسل عورت ہی دے اور اگر مرد ہے تو اس کو غسل مرد دیں۔ لیکن عورت اپنے خاوند کو اور خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتے ہیں جیسا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔ (سنن دارقطنی: ۲؍ ۷۹۔ بیہقی: ۳؍ ۳۹۶) اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کوا ن کی بیوی سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔ (بیہقی: ۳؍ ۳۹۷) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر مجھے وہ خیال پہلے آجاتا جو بعد میں آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ازواج مطہرات ہی غسل دیتیں۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۴۶۴) (۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل تین مرتبہ دینا چاہیے، اگر پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دینا ہے تو طاق۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: ((ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ سَبْعًا)) اور ((اِغْسِلْنَهَا وِتْرًا)).... ’’تین یا پانچ یا سات مرتبہ۔‘‘ ( بخاري، رقم : ۱۲۵۴) (۳) معلوم ہوا کم از کم تین مرتبہ، زیادہ جتنی مرتبہ چاہیے لیکن طاق عدد ہونا چاہیے اور آخری مرتبہ جو میت کے جسم پر پانی بہایا جائے، اس میں کافور ڈالنا چاہیے۔ کیونکہ کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دور رکھتی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میت کو کافور لگانے کی حکمت یہ ہے کہ دفن کرنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور بالخصوص کافور کا حکم اس لیے ہے کہ جس چیز میں اسے استعمال کیا جاتا ہے وہ جلدی متغیر نہیں ہوتی اور اس کا فائدہ یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔ (نیل الاوطار: ۲؍ ۶۸۲) (۴) حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بِمَاءٍ وَسِدْرٍ)).... ’’پانی اور بیری کے پتوں سے۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۱۲۵۴) بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے تو صفائی بہتر ہوتی ہے۔ آج کے دور میں صابن بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الجنائز، باب ما یستحب ان یغسل وترا، رقم: ۱۲۵۴۔ مسلم، کتاب الجنائز، باب غسل المیت، رقم: ۹۳۹۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۱۴۳۔ سنن نسائي، رقم: ۱۸۸۸۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اگر میت عورت ہے تو اس کو غسل عورت ہی دے اور اگر مرد ہے تو اس کو غسل مرد دیں۔ لیکن عورت اپنے خاوند کو اور خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتے ہیں جیسا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔ (سنن دارقطنی: ۲؍ ۷۹۔ بیہقی: ۳؍ ۳۹۶) اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کوا ن کی بیوی سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل دیا۔ (بیہقی: ۳؍ ۳۹۷) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر مجھے وہ خیال پہلے آجاتا جو بعد میں آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ازواج مطہرات ہی غسل دیتیں۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۴۶۴) (۲) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل تین مرتبہ دینا چاہیے، اگر پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دینا ہے تو طاق۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: ((ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ سَبْعًا)) اور ((اِغْسِلْنَهَا وِتْرًا)).... ’’تین یا پانچ یا سات مرتبہ۔‘‘ ( بخاري، رقم : ۱۲۵۴) (۳) معلوم ہوا کم از کم تین مرتبہ، زیادہ جتنی مرتبہ چاہیے لیکن طاق عدد ہونا چاہیے اور آخری مرتبہ جو میت کے جسم پر پانی بہایا جائے، اس میں کافور ڈالنا چاہیے۔ کیونکہ کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دور رکھتی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میت کو کافور لگانے کی حکمت یہ ہے کہ دفن کرنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور بالخصوص کافور کا حکم اس لیے ہے کہ جس چیز میں اسے استعمال کیا جاتا ہے وہ جلدی متغیر نہیں ہوتی اور اس کا فائدہ یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔ (نیل الاوطار: ۲؍ ۶۸۲) (۴) حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بِمَاءٍ وَسِدْرٍ)).... ’’پانی اور بیری کے پتوں سے۔ ‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۱۲۵۴) بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے تو صفائی بہتر ہوتی ہے۔ آج کے دور میں صابن بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔