مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 256

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُقْرِئُ، نا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَا مِنْ أَحَدٍ سَلَّمَ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 256

جنازے کے احکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے حتیٰ کہ میں اسے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث کی شرح میں فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ پر سلام بھیجنے والے کو جواب دیتے ہیں، لیکن یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے، جس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، اس لیے حیات الانبیاء کا مسئلہ تو اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن اس کی بابت یہ دعویٰ کرنا غیر صحیح ہے کہ یہ حیات دنیوی حیات ہی کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ قوی ہے۔ یہ بے بنیاد دعویٰ ہے جو قرآن وحدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ اگر آپ دنیا کی طرح ہی زندہ ہوتے تو پھر رد روح کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، اس کے بغیر ہی آپ جواب دینے پر قادر ہوتے۔ باقی رہا یہ اشکال کہ کروڑوں مسلمانوں میں سے بے شمار مسلمان ہر وقت ہی آپ پر درود وسلام بھیجتے رہتے ہیں۔ تو وقفے وقفے سے یہ رد روح کس طرح ممکن ہے؟ تو یہ اشکال اللہ کی قدرت پر عدم یقین کا نتیجہ ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے تو ہمیں صرف اس حقیقت پر ایمان رکھنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اس کی کیفیت ونوعیت کیا ہے؟ ہمیں اس کا علم نہیں ہے نہ ہو ہی سکتا ہے۔ اس رد روح کو بھی ان متشابہات میں سے سمجھنا چاہیے جن پر ایمان رکھنا تو ضروری ہے لیکن ان کی پوری حقیقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ بہرحال اس حدیث میں کثرت سے درد وسلام پڑھنے کی ترغیب ہے تاکہ مسلمان نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے زیادہ سے زیادہ بہرہ ور ہوں، یہ یقینا ایک بہت بڑی سعادت ہے جو ہر مسلمان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ریاض الصالحین، فوائد حدیث نمبر ۱۴۰۲، مطبوعہ دارالسلام)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب المناسك، باب زیارة القبور، رقم: ۲۰۴۱۔ مسند احمد: ۲؍ ۵۲۷۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۵۶۷۹۔ صحیح ترغیب و ترهیب، رقم: ۱۶۶۶۔ قال الشیخ الالباني وشعیب الارناؤط: اسناده حسن۔ مذکورہ حدیث کی شرح میں فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ پر سلام بھیجنے والے کو جواب دیتے ہیں، لیکن یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے، جس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، اس لیے حیات الانبیاء کا مسئلہ تو اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن اس کی بابت یہ دعویٰ کرنا غیر صحیح ہے کہ یہ حیات دنیوی حیات ہی کی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ قوی ہے۔ یہ بے بنیاد دعویٰ ہے جو قرآن وحدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ اگر آپ دنیا کی طرح ہی زندہ ہوتے تو پھر رد روح کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، اس کے بغیر ہی آپ جواب دینے پر قادر ہوتے۔ باقی رہا یہ اشکال کہ کروڑوں مسلمانوں میں سے بے شمار مسلمان ہر وقت ہی آپ پر درود وسلام بھیجتے رہتے ہیں۔ تو وقفے وقفے سے یہ رد روح کس طرح ممکن ہے؟ تو یہ اشکال اللہ کی قدرت پر عدم یقین کا نتیجہ ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے تو ہمیں صرف اس حقیقت پر ایمان رکھنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اس کی کیفیت ونوعیت کیا ہے؟ ہمیں اس کا علم نہیں ہے نہ ہو ہی سکتا ہے۔ اس رد روح کو بھی ان متشابہات میں سے سمجھنا چاہیے جن پر ایمان رکھنا تو ضروری ہے لیکن ان کی پوری حقیقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ بہرحال اس حدیث میں کثرت سے درد وسلام پڑھنے کی ترغیب ہے تاکہ مسلمان نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے زیادہ سے زیادہ بہرہ ور ہوں، یہ یقینا ایک بہت بڑی سعادت ہے جو ہر مسلمان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ریاض الصالحین، فوائد حدیث نمبر ۱۴۰۲، مطبوعہ دارالسلام)