كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، نا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ فَأُثْنِيَ عَلَيْهِ خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَجَبَتْ)) ، ثُمَّ تُوُفِّيَ آخَرُ فَأُثْنِيَ عَلَيْهِ شَرًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَجَبَتْ)) ، فَعَجِبَ بَعْضُ الْقَوْمِ مِنْهُ وَقَالَ: مَا وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَنْتُمْ شُهَدَاءُ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ)) .
جنازے کے احکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ایک آدمی فوت ہوگیا تو اس کی اچھائیاں بیان کی گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(جنت) واجب ہوگئی۔‘‘ پھر ایک دوسرا شخص فوت ہوا تو اس کی برائیاں بیان کی گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(جہنم) واجب ہوگئی، بعض لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا واجب ہوگئی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے پر گواہ ہو۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ یہ جن کو اچھا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو اچھا سمجھتا ہے اور جن کو یہ برا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو برا سمجھتا ہے اور معلوم ہوا مرنے والوں کی نیکیوں کا ذکر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے اپنی زندگی میں اچھے اخلاق اختیار کرے اور لوگوں کے کام آنے کی کوشش کرتا رہے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اچھے الفاظ سے یاد کریں۔
سیدنا یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے ساتھ نکلے، لوگوں نے اس میت کے بارے میں اچھے کلمات کہے اور اس کی تعریف کی، اتنے میں جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور کہا: یہ آدمی اس طرح تھا تو نہیں جیسے لوگ کہہ رہے ہیں۔ بہرحال تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، اس لیے اس نے (تمہاری گواہی کو دیکھ کر) اس کے وہ گناہ بھی معاف کر دئیے جو یہ لوگ نہیں جانتے تھے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۳۱۲)
تخریج :
بخاري، کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت، رقم: ۱۳۶۷۔ مسلم، کتاب الجنائز، باب فیمن یثنی علیه خیرا الخ، رقم: ۹۴۹۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۲۳۳۔ سنن ترمذي، رقم: ۱۰۵۸۔
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ یہ جن کو اچھا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو اچھا سمجھتا ہے اور جن کو یہ برا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو برا سمجھتا ہے اور معلوم ہوا مرنے والوں کی نیکیوں کا ذکر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے اپنی زندگی میں اچھے اخلاق اختیار کرے اور لوگوں کے کام آنے کی کوشش کرتا رہے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اچھے الفاظ سے یاد کریں۔
سیدنا یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے ساتھ نکلے، لوگوں نے اس میت کے بارے میں اچھے کلمات کہے اور اس کی تعریف کی، اتنے میں جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور کہا: یہ آدمی اس طرح تھا تو نہیں جیسے لوگ کہہ رہے ہیں۔ بہرحال تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، اس لیے اس نے (تمہاری گواہی کو دیکھ کر) اس کے وہ گناہ بھی معاف کر دئیے جو یہ لوگ نہیں جانتے تھے۔‘‘ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۳۱۲)