مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 243

كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابٌ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ جَارِيَةً، كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، أَوْ رَجُلٌ فَقَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عَنْهُ، قَالُوا: قَدْ مَاتَ، قَالَ: أَلَا آذَنْتُمُونِي بِهِ؟ قَالُوا: إِنَّهُ قَالَ: ((فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 243

جنازے کے احکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی یا آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ پایا تو آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کیا: وہ تو فوت ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے اس کے متعلق مجھے مطلع کیوں نہ کیا؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر کے متعلق بتاؤ۔‘‘ پس آپ اس کی قبر پر آئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح : سنن بیہقی میں ہے کہ اس صحابیہ کا نام ام محجن رضی اللہ عنہا تھا۔ (سنن کبری بیہقی: ۴؍ ۴۸) معلوم ہوا امیر اور سربراہ کو اپنی رعایا کا خیال رکھنا چاہیے، اس سے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تعلق اور تواضع کا اثبات ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ انہوں نے کہا: آپ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے اور آپ روزے سے تھے تو ہمیں یہ بات اچھی نہ لگی کہ آپ کو تکلیف دیں۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۱۵۲۸) معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، اس سے چھوٹوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ بڑوں کے آرام کا خیال رکھیں۔ مذکورہ بالا حدیث سے مسجد کی صفائی کی بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ اس عمل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کے جنازوں میں شرکت کرنی چاہیے۔ معلوم ہوا کہ قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن نماز جنازہ کے علاوہ اور کوئی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ساری زمین مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔‘‘ ( سنن ترمذي، رقم : ۳۱۷) اور اسی طرح فرمایا: ’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔‘‘ (مسلم، رقم : ۳۱۷) اور قبر پر بھی اس طرح جنازہ پڑھنا ہے جس طرح عام پڑھا جاتا ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الصلاة، باب کنس المسجد النبي، رقم: ۴۵۸۔ مسلم، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، رقم: ۹۵۶۔ سنن ابي داود، رقم: ۳۲۰۳۔ مسند احمد: ۲؍ ۳۵۳۔ صحیح ابن حبان: رقم:۳۰۸۶۔ سنن بیہقی میں ہے کہ اس صحابیہ کا نام ام محجن رضی اللہ عنہا تھا۔ (سنن کبری بیہقی: ۴؍ ۴۸) معلوم ہوا امیر اور سربراہ کو اپنی رعایا کا خیال رکھنا چاہیے، اس سے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تعلق اور تواضع کا اثبات ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ انہوں نے کہا: آپ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے اور آپ روزے سے تھے تو ہمیں یہ بات اچھی نہ لگی کہ آپ کو تکلیف دیں۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۱۵۲۸) معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، اس سے چھوٹوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ بڑوں کے آرام کا خیال رکھیں۔ مذکورہ بالا حدیث سے مسجد کی صفائی کی بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ اس عمل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کے جنازوں میں شرکت کرنی چاہیے۔ معلوم ہوا کہ قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن نماز جنازہ کے علاوہ اور کوئی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ساری زمین مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔‘‘ ( سنن ترمذي، رقم : ۳۱۷) اور اسی طرح فرمایا: ’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔‘‘ (مسلم، رقم : ۳۱۷) اور قبر پر بھی اس طرح جنازہ پڑھنا ہے جس طرح عام پڑھا جاتا ہے۔