كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ))
ايمان کابیان
باب
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے امانت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایمان وامانت لازم وملزوم ہیں۔ اگر بندہ امانت دار نہیں تو یقینا وہ ایمان سے محروم ہے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ((لَا یَغُرَنَّکَ صَلَاةُ رَجُلٍ وَلَا صِیَامُهٗ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ صَلّٰی وَلٰکِنْ لَّا دِیْنَ لِمَنْ لَّا اَمَانَةَ لَهٗ۔)) (شعب الایمان: ۴؍۳۳۶) … ’’تمہیں کسی شخص کی نماز اور اس کا روزہ دھوکہ میں نہ ڈالے، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نماز پڑھے مگر اس کا کوئی دین نہیں جو امانت دار نہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: ((اِذَ ا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا ائْتُمِنَ خَانَ۔))… ’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو اُس میں خیانت کرے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ((وَاِنْ صَلَّی وَصَامَ وَزَعَمَ اَ نَّهٗ مُسْلِمٌ۔))… ’’اور اگرچہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘ (تفصیل کے لیے دیکھئے شرح حدیث نمبر ۳۸۲)
اللہ ذوالجلال نے قرآن مجید میں مومنوں کی صفتوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان صفات میں امانتداری بھی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِهِمْ رَاعُوْنَo﴾ (المومنون: ۸)… ’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔‘‘
اگر دیکھا جائے تو پورے دین کی عمارت امانت پر قائم ہے۔ دین اللہ ذوالجلال نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرمایا تو جبریل علیہ السلام کا لقب ہی الروح الامین قرار پایا۔ اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کو بھی امین کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء میں انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے حوالے سے ہر نبی کا یہ قول بیان ہوا ہے کہ: ﴿اِِنِّی لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ (الشعراء: ۱۰۷)… ’’میں تمہارے پاس رسول امین ہوں۔‘‘
تخریج :
مسند احمد: ۳؍ ۱۳۵، ۱۵۴ قال شعیب الأرناؤوط : حسن۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۱۹۴۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۷۱۷۹۔ صحیح ترغیب وترهیب، رقم: ۵۷۵۔
مذکورہ حدیث سے امانت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایمان وامانت لازم وملزوم ہیں۔ اگر بندہ امانت دار نہیں تو یقینا وہ ایمان سے محروم ہے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ((لَا یَغُرَنَّکَ صَلَاةُ رَجُلٍ وَلَا صِیَامُهٗ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ صَلّٰی وَلٰکِنْ لَّا دِیْنَ لِمَنْ لَّا اَمَانَةَ لَهٗ۔)) (شعب الایمان: ۴؍۳۳۶) … ’’تمہیں کسی شخص کی نماز اور اس کا روزہ دھوکہ میں نہ ڈالے، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نماز پڑھے مگر اس کا کوئی دین نہیں جو امانت دار نہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: ((اِذَ ا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا ائْتُمِنَ خَانَ۔))… ’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو اُس میں خیانت کرے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ((وَاِنْ صَلَّی وَصَامَ وَزَعَمَ اَ نَّهٗ مُسْلِمٌ۔))… ’’اور اگرچہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘ (تفصیل کے لیے دیکھئے شرح حدیث نمبر ۳۸۲)
اللہ ذوالجلال نے قرآن مجید میں مومنوں کی صفتوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان صفات میں امانتداری بھی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِهِمْ رَاعُوْنَo﴾ (المومنون: ۸)… ’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔‘‘
اگر دیکھا جائے تو پورے دین کی عمارت امانت پر قائم ہے۔ دین اللہ ذوالجلال نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرمایا تو جبریل علیہ السلام کا لقب ہی الروح الامین قرار پایا۔ اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کو بھی امین کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء میں انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے حوالے سے ہر نبی کا یہ قول بیان ہوا ہے کہ: ﴿اِِنِّی لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ (الشعراء: ۱۰۷)… ’’میں تمہارے پاس رسول امین ہوں۔‘‘