مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 236

كِتَابُ التَّهَجُّدِ وَ التَّطوُّعِ بَابٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ كُلَّ لَيْلَةٍ إِذَا بَقِيَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَهُ، وَمَنْ يَسْتَغِفِرُنِي فَأَغْفِرُ لَهُ ".

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 236

تہجد ونفل نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ہر رات جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کون مجھے پکارتا ہے میں اس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
تشریح : (۱).... مذکورہ حدیث سے اللہ ذوالجلال کے نزول کا اثبات ہوتا ہے اور اس کا نازل ہونا برحق ہے اور وہ اپنی ذات سے اترتا ہے نہ کہ اس سے مراد اس کی رحمت یا فرشتہ، جیسا کہ لوگ تاویلیں پیش کرتے ہیں ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جمہور سلف اور ائمہ اربعہ اور بہت سارے علمائے دین کا یہ عقیدہ ہے کہ بغیر تاویلات، کیفیت اور تشبیہ کے اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالیٰ وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور درست ہے۔ اور سلف کی اتباع لازم پکڑ لے اور تاویلات والوں میں سے مت ہوں۔‘‘ معلوم ہوا اللہ ذوالجلال کی ان صفتوں پر ایمان لانا چاہیے اور انکار یا تاویلات نہیں کرنی چاہئیں اور نہ ہی ان صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْئٌ وَهُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) (۲).... مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا رات کا آخری حصہ انتہائی افضل ہے اور اس وقت نفل ونوافل پڑھنے چاہئیں، استغفار کرنا چاہیے اور دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اللہ ذوالجلال نے اپنے بندوں کی صفتیں بیان کی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ() وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاریات: ۱۷۔۱۸).... ’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘
تخریج : بخاري، کتاب التهجد، باب الدعا والصلاة من اخر اللیل، رقم : ۱۱۴۵۔ مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب الترغیب في الدعاء الخ، رقم: ۷۵۸۔ سنن ابي داود، رقم: ۱۳۱۵۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۱۳۶۶۔ (۱).... مذکورہ حدیث سے اللہ ذوالجلال کے نزول کا اثبات ہوتا ہے اور اس کا نازل ہونا برحق ہے اور وہ اپنی ذات سے اترتا ہے نہ کہ اس سے مراد اس کی رحمت یا فرشتہ، جیسا کہ لوگ تاویلیں پیش کرتے ہیں ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جمہور سلف اور ائمہ اربعہ اور بہت سارے علمائے دین کا یہ عقیدہ ہے کہ بغیر تاویلات، کیفیت اور تشبیہ کے اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالیٰ وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور درست ہے۔ اور سلف کی اتباع لازم پکڑ لے اور تاویلات والوں میں سے مت ہوں۔‘‘ معلوم ہوا اللہ ذوالجلال کی ان صفتوں پر ایمان لانا چاہیے اور انکار یا تاویلات نہیں کرنی چاہئیں اور نہ ہی ان صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح سمجھنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیْئٌ وَهُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) (۲).... مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا رات کا آخری حصہ انتہائی افضل ہے اور اس وقت نفل ونوافل پڑھنے چاہئیں، استغفار کرنا چاہیے اور دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اللہ ذوالجلال نے اپنے بندوں کی صفتیں بیان کی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ() وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاریات: ۱۷۔۱۸).... ’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘