مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 234

كِتَابُ التَّهَجُّدِ وَ التَّطوُّعِ بَابٌ قُلْتُ لِأَبِيَ أُسَامَةَ أَحَدَّثَكُمْ أَبُو حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ: ((يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهِ عِنْدَكَ مَنْفَعَةً فِي الْإِسْلَامِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ)) قَالَ: مَا عَمَلٌ عَمِلْتُهُ أَرْجَى عِنْدِي إِلَّا إِنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ لِرَبِّي مَا قُدِّرَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ، فَأَقَرَّ بِهِ أَبُو أُسَامَةَ، وَقَالَ: ((نَعَمْ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 234

تہجد ونفل نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے وقت بلال( رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا: ’’بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک عمل بتاؤ جو تم نے کیا ہو اور وہ تیرے نزدیک اسلام کی مصلحت کی خاطر ہو، کیونکہ میں نے اس رات جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید والا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کے کسی وقت میں وضو کیا ہے تو میں نے نفل نماز پڑھی ہے جس قدر میرے رب نے میرے مقدر میں لکھی ہے۔
تشریح : (۱).... مذکورہ حدیث سے سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ (۲).... یہ بھی معلوم ہوا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جنتی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام بلال باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو خرید کر آزاد کر دیا، آپ نے بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شمولیت اختیار کی اور جب مدینہ میں اذان شروع ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دیا کرتے تھے، کبھی یہ اور کبھی وہ، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ خوبصورت اور دل پسند آواز والے اور فصیح تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ، پینسٹھ سال تھی کہ آپ نے شام کے علاقہ میں وفات پائی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے (اسد الغابة: ۴۱۵، البدایة والنهایة: حالات ۲۰ہجری) مذکورہ بالا روایت سے باوضو رہنے والوں اور ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت پڑھتا ہوں اور میں ہمیشہ وضو میں رہتا ہوں، جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے تو میں وضو کرتا ہوں، پھر دو رکعت نماز اتنی باقاعدگی سے پڑھتا ہوں کہ گویا کہ مجھ پر میرے اللہ کا حق ہے۔ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہی دو عملوں کی وجہ سے اللہ نے تجھے یہ مقام دیا کہ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تیرے چلنے کی آواز اپنے آگے یا ایک طرف سنی۔ ‘‘ ( سنن ترمذي، رقم : ۳۹۵۴۔ مسند احمد: ۵؍ ۳۵۴ اسناده صحیح)
تخریج : مسلم، کتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب من فضائل بلال رضي الله عنه، رقم: ۲۴۵۸۔ مسند احمد: ۲؍ ۴۳۹۔ ابن خزیمة، رقم: ۱۲۰۸۔ مسند ابي یعلیٰ، رقم: ۶۱۰۴ (۱).... مذکورہ حدیث سے سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ (۲).... یہ بھی معلوم ہوا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جنتی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام بلال باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ امیہ بن خلف کے غلام تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو خرید کر آزاد کر دیا، آپ نے بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شمولیت اختیار کی اور جب مدینہ میں اذان شروع ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دیا کرتے تھے، کبھی یہ اور کبھی وہ، اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ خوبصورت اور دل پسند آواز والے اور فصیح تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ، پینسٹھ سال تھی کہ آپ نے شام کے علاقہ میں وفات پائی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے (اسد الغابة: ۴۱۵، البدایة والنهایة: حالات ۲۰ہجری) مذکورہ بالا روایت سے باوضو رہنے والوں اور ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت پڑھتا ہوں اور میں ہمیشہ وضو میں رہتا ہوں، جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے تو میں وضو کرتا ہوں، پھر دو رکعت نماز اتنی باقاعدگی سے پڑھتا ہوں کہ گویا کہ مجھ پر میرے اللہ کا حق ہے۔ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہی دو عملوں کی وجہ سے اللہ نے تجھے یہ مقام دیا کہ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تیرے چلنے کی آواز اپنے آگے یا ایک طرف سنی۔ ‘‘ ( سنن ترمذي، رقم : ۳۹۵۴۔ مسند احمد: ۵؍ ۳۵۴ اسناده صحیح)