مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 22

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْهُ أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 22

ايمان کابیان باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے، جب تک وہ انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں یا ان کے متعلق بات نہ کر لیں، درگزر فرمایا ہے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے رہتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا﴾ (البقرۃ: ۲۸۶)پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو ’وساوس‘ کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو ’الہامات‘ ہیں۔ لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عند اللہ مجرم ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔‘‘ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ’’وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۷۰۸۳) بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِهِ اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ﴾ (النحل: ۱۰۶) ’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔‘‘ اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عند اللہ ماجور ہوگا۔
تخریج : السابق۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں جو مختلف خیالات آتے رہتے ہیں، ان خیالات پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا﴾ (البقرۃ: ۲۸۶)پھر یہ خیالات اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور اگر خیالات گندے کاموں کی طرف دعوت دیں تو ان خیالات کو ’وساوس‘ کہتے ہیں۔ اور اگر نیکی کی طرف دعوت دیں تو ’الہامات‘ ہیں۔ لیکن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب انسان گناہ کا عزم کرتا ہے اور مکمل کوشش کرتا ہے اور اس میں ناکام ہو جائے تو وہ عند اللہ مجرم ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔‘‘ عرض کیا گیا: یہ تو قاتل ہے (اس لیے مجرم ہے) مقتول (کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ’’وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی خواہش رکھتا تھا۔‘‘ (صحیح بخاري، رقم : ۷۰۸۳) بعض اوقات انسان مجبوراً اپنی زبان سے ایسے کلمات کہتا ہے لیکن دل سے انکا اقرار نہیں کرتا تو ایسے انسان پر بھی مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِهِ اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ﴾ (النحل: ۱۰۶) ’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔‘‘ اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اظہار زبان سے نہ بھی کیا جائے تو اس کی جزا و سزا ملتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے محبت کرنا، اللہ ذوالجلال کے شعار کا احترام کرنا ثواب ہے اور اسی طرح برے کام سے نفرت کرنا بھی ثواب ہے۔ ان کا تعلق دل سے ہی ہے اگر انسان اظہار نہ بھی کرے تو عند اللہ ماجور ہوگا۔