كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، اَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاؤُوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ بَلَغَ الْحَلْمَ، اَنْ یَّتَطَهَّرَ لِلّٰهِ فِی کُلِّ سَبْعَةِ اَیَّامٍ یَوْمًا، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ جُنُبًا، یَغْسِلُ رَأْسَهٗ وَجِلْدَهٗ یَوْمُ الْجُمُعَةِ
جمعہ کے احکام و مسائل
باب
طاؤس رحمہ اللہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہربالغ شخص پر حق ہے کہ وہ ہر سات دن میں سے ایک دن اللہ کی خاطر خوب صفائی کرے، اگرچہ وہ جنبی نہ ہو، وہ جمعہ کے دن اپنا سر اور اپنا جسم دھوئے گا۔‘‘
تشریح :
جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا مسنون ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے ہر بالغ مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن غسل کرنا حق ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ: ((غُسْلُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ۔)) ( بخاري، رقم : ۸۵۸) .... ’’ہر بالغ شخص پر جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے۔‘‘
روایات سے ثابت ہے کہ مشکل حالات کی وجہ سے صحابہ کرام موسم گرما میں اونی لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے پسینہ آتا اور مسجد میں ان کے پسینے کی بدبو پھیل جاتی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ((لَوْ اَنَّکُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِیَوْمِکُمْ هٰذَا۔)) (بخاري، رقم : ۹۰۳۔ مسلم، رقم : ۸۴۷) ’’اگر تم اس دن غسل کرلیا کرو (تو بہتر ہے۔)‘‘
ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء میں اختلاف ہے کیا غسل جمعہ واجب ہے یا کہ نہیں؟ علامہ ابن حجر اور ابن حزم ; کا موقف ہے کہ غسل جمعہ فرض ہے۔ ( فتح الباري: ۳؍ ۱۳۔ المحلی بالآثار: ۱؍ ۲۵۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے: غسل جمعہ مستحب ہے، البتہ جس میں پسینے کی وجہ سے بدبو ہو اور نمازی اور فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرسکتے ہوں، اس پر واجب ہے۔ (التعلیق علی سبل السلام للشیخ عبدالله بسام: ۱؍ ۱۸۶)
تخریج :
مصنف عبدالرزاق، رقم: ۵۲۹۵۔ اسناده مرسلٌ صحیح۔
جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا مسنون ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے ہر بالغ مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن غسل کرنا حق ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ: ((غُسْلُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ۔)) ( بخاري، رقم : ۸۵۸) .... ’’ہر بالغ شخص پر جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے۔‘‘
روایات سے ثابت ہے کہ مشکل حالات کی وجہ سے صحابہ کرام موسم گرما میں اونی لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے پسینہ آتا اور مسجد میں ان کے پسینے کی بدبو پھیل جاتی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ((لَوْ اَنَّکُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِیَوْمِکُمْ هٰذَا۔)) (بخاري، رقم : ۹۰۳۔ مسلم، رقم : ۸۴۷) ’’اگر تم اس دن غسل کرلیا کرو (تو بہتر ہے۔)‘‘
ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء میں اختلاف ہے کیا غسل جمعہ واجب ہے یا کہ نہیں؟ علامہ ابن حجر اور ابن حزم ; کا موقف ہے کہ غسل جمعہ فرض ہے۔ ( فتح الباري: ۳؍ ۱۳۔ المحلی بالآثار: ۱؍ ۲۵۵)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے: غسل جمعہ مستحب ہے، البتہ جس میں پسینے کی وجہ سے بدبو ہو اور نمازی اور فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرسکتے ہوں، اس پر واجب ہے۔ (التعلیق علی سبل السلام للشیخ عبدالله بسام: ۱؍ ۱۸۶)