مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 216

كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((فِي الْجُمْعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا خَيْرًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ مَأْثَمًا أَوْ قَطِيعَةَ رَحِمٍ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 216

جمعہ کے احکام و مسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان شخص نماز پڑھ رہا ہو اور وہ اس میں اللہ سے کسی خیر کی درخواست کرے تو اللہ اسے وہی خیر عطا فرما دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کا سوال نہ کرے۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے جمعہ کے دن کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے کہ جس میں ایسی گھڑی ہے کہ جائز دعا کرنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ یہ گھڑی کون سی ہے اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز پوری ہونے تک (کے درمیانی وقت میں) ہے۔ ‘‘(مسلم، رقم : ۸۵۳۔ سنن ابي داود، رقم : ۱۰۴۹) دوسری حدیث میں ہے وہ گھڑی نماز عصر اور غروب آفتاب کے درمیانی وقت میں ہے۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۰۴۸۔ سنن ترمذي، رقم : ۴۸۹) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’صحیح بخاری‘‘ کی شرح ’’فتح الباری‘‘ میں چالیس کے قریب علماء کے اقوال نقل کیے ہیں لیکن زیادہ راجح دو قول ہیں۔ جن کا تذکرہ مذکورہ بالا دو احادیث میں ہوا ہے۔ اس میں زیادہ مناسب یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ سے لے کر دن کے آخر تک اس گھڑی کو تلاش کیا جائے اور اس دوران کثرت سے دعا کی کوشش کی جائے۔ شیخ ابن جبیرین رحمہ اللہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۱؍۴۰۰) امام شوکانی رحمہ اللہ علامہ ابن منیر رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۲۷۷)
تخریج : السابق۔ مذکورہ حدیث سے جمعہ کے دن کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے کہ جس میں ایسی گھڑی ہے کہ جائز دعا کرنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ یہ گھڑی کون سی ہے اس کے تعین میں اختلاف ہے۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز پوری ہونے تک (کے درمیانی وقت میں) ہے۔ ‘‘(مسلم، رقم : ۸۵۳۔ سنن ابي داود، رقم : ۱۰۴۹) دوسری حدیث میں ہے وہ گھڑی نماز عصر اور غروب آفتاب کے درمیانی وقت میں ہے۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۰۴۸۔ سنن ترمذي، رقم : ۴۸۹) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’صحیح بخاری‘‘ کی شرح ’’فتح الباری‘‘ میں چالیس کے قریب علماء کے اقوال نقل کیے ہیں لیکن زیادہ راجح دو قول ہیں۔ جن کا تذکرہ مذکورہ بالا دو احادیث میں ہوا ہے۔ اس میں زیادہ مناسب یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ سے لے کر دن کے آخر تک اس گھڑی کو تلاش کیا جائے اور اس دوران کثرت سے دعا کی کوشش کی جائے۔ شیخ ابن جبیرین رحمہ اللہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۱؍۴۰۰) امام شوکانی رحمہ اللہ علامہ ابن منیر رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں۔ (نیل الاوطار: ۳؍ ۲۷۷)