كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا الْمُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ، نَا زَائِدَةُ، عَنْ لَیْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْحَضْرِ وَالسَّفَرِ بَیْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَبَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ
نماز کےاحکام ومسائل
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر وسفر میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے پڑھا۔
تشریح :
مذکورہ روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضر وسفر میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کرکے پڑھا کرتے۔ دوران سفر تو جمع کرنا دیگر احادیث سے ثابت ہے، ایک کو دوسری کے وقت میں ادا کرنا اسے جمع تقدیم وتاخیر کہتے ہیں۔ امام احمد، مالک، شافعی رحمہم اللہ دوران سفر اس جمع کے جواز کے قائل ہیں۔ اور حضر میں بھی بیماری، بارش اور خوف کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ہم کو آٹھ رکعتیں اور سات رکعتیں یعنی ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں (جمع کرکے) پڑھائیں۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۲۱۴)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف یا بارش کے ظہر وعصر کی اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھیں۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: یہی کہ امت کو مشقت نہ ہو۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۲۱۱) علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آئمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہر پر بھی فتویٰ دیا ہے اور حضر میں بھی مطلقاً انہوں نے جائز کہا ہے۔ دو نمازوں کو جمع کرلیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی فتویٰ ہے۔
اور علامہ خطابی رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیا ہے۔ مگر جمہور کہتے ہیں: بغیر عذر جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی: ۱؍ ۱۶۶)
تخریج :
مسند احمد: ۱؍ ۳۶۰۔ قال شعیب الارناؤط: اسناده صحیح۔ شواهد بخاري، کتاب التقصیر، باب الجمع في السفریین المغرب والعشاء، رقم: ۱۱۰۷۔
مذکورہ روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضر وسفر میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کرکے پڑھا کرتے۔ دوران سفر تو جمع کرنا دیگر احادیث سے ثابت ہے، ایک کو دوسری کے وقت میں ادا کرنا اسے جمع تقدیم وتاخیر کہتے ہیں۔ امام احمد، مالک، شافعی رحمہم اللہ دوران سفر اس جمع کے جواز کے قائل ہیں۔ اور حضر میں بھی بیماری، بارش اور خوف کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ہم کو آٹھ رکعتیں اور سات رکعتیں یعنی ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں (جمع کرکے) پڑھائیں۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۲۱۴)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف یا بارش کے ظہر وعصر کی اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھیں۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: یہی کہ امت کو مشقت نہ ہو۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۱۲۱۱) علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آئمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہر پر بھی فتویٰ دیا ہے اور حضر میں بھی مطلقاً انہوں نے جائز کہا ہے۔ دو نمازوں کو جمع کرلیا جائے، اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی فتویٰ ہے۔
اور علامہ خطابی رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیا ہے۔ مگر جمہور کہتے ہیں: بغیر عذر جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی: ۱؍ ۱۶۶)