مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 196

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ اَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، نَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ اَبِیْ هُرَیْرَةَ اَنَّهٗ قَالَ: یَعْنِی رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اَدْرَكَ (رَکْعَةً) مِّنَ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ اَدْرَکَهَا، وَمَنْ اَدْرَكَ رَکْعَةً مِّنَ الصُّبْحِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَرَکْعَةً بَعْدَ مَا تَطْلُعُ، فَقَدْ اَدْرَکَهَا

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 196

نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی تو اس نے اس (عصر کی نماز) کو پا لیا اور جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پا لی اور ایک رکعت سورج طلوع ہونے کے بعدپا لی تو اس نے اس (فجر کی نماز) کو پا لیا۔‘‘
تشریح : ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: تین اوقات ایسے ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرماتے تھے کہ ان میں نماز پڑھیں یا ان میں اپنے فوت شدگان کو دفن کریں۔ جب سورج طلوع ہو رہا ہو،عین دوپہر کے وقت حتی کہ سورج ڈھل جائے اور جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو حتی کہ غروب ہوجائے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، رقم : ۸۳۱۔ سنن ابوداد، رقم : ۳۱۹۲) پہلی روایت دوسری روایت کے مخالف نہیں بلکہ ان اوقات میں نماز شروع کرنا منع ہے اگر کوئی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء کرلے تو بعد میں سورج طلوع یا غروب ہو بھی رہا ہو تو نماز کو جاری رکھنا چاہیے۔ اور باقی نماز کو مکمل کرنا چاہیے۔ امام شافعی اور امام احمد ; کا یہی موقف ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فجر اور عصر میں فرق کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عصر کی نماز میں تو یہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے شروع کرے گاسورج نکل آیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ (کتاب الام للشافعی: ۱؍ ۱۵۶۔ المغنی: ۲؍ ۵۱۶) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ موقف صریح حدیث کے خلاف ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب مواقیت الصلاة، باب من ادرك من الفجر رکعة، رقم : ۵۷۹۔ مسلم، کتاب المساجد، باب من ادرك رکعة من الصلاة الخ، رقم: ۶۰۸۔ سنن ابي داود، رقم: ۴۱۲۔ سنن ترمذي، رقم: ۱۸۶۔ سنن نسائي، رقم: ۵۱۴۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۶۹۹، ۷۰۰۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۵۴۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۱۴۸۴۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: تین اوقات ایسے ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرماتے تھے کہ ان میں نماز پڑھیں یا ان میں اپنے فوت شدگان کو دفن کریں۔ جب سورج طلوع ہو رہا ہو،عین دوپہر کے وقت حتی کہ سورج ڈھل جائے اور جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو حتی کہ غروب ہوجائے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، رقم : ۸۳۱۔ سنن ابوداد، رقم : ۳۱۹۲) پہلی روایت دوسری روایت کے مخالف نہیں بلکہ ان اوقات میں نماز شروع کرنا منع ہے اگر کوئی طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء کرلے تو بعد میں سورج طلوع یا غروب ہو بھی رہا ہو تو نماز کو جاری رکھنا چاہیے۔ اور باقی نماز کو مکمل کرنا چاہیے۔ امام شافعی اور امام احمد ; کا یہی موقف ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فجر اور عصر میں فرق کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عصر کی نماز میں تو یہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے شروع کرے گاسورج نکل آیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ (کتاب الام للشافعی: ۱؍ ۱۵۶۔ المغنی: ۲؍ ۵۱۶) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ موقف صریح حدیث کے خلاف ہے۔