مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 182

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يُونُسَ بْنُ بُكَيْرٍ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي غَطَفَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ فِي الصَّلَاةِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ، وَمَنْ أَشَارَ فِي صَلَاتِهَ إِشَارَةً تُفْهِمُ فَلْيُعِدْ لَهَا الصَّلَاةَ)) آخِرُ أَحَادِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 182

نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز میں (امام کو بھول جانے؍ غلطی کرنے پر متنبہ کرنے کے لیے) مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے، اور جو شخص اپنی نماز میں کوئی ایسا اشارہ کرے جو سمجھا جائے تو وہ اس کے لیے نماز دہرائے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی آخری حدیث ہے۔
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دوران نماز امام کو غلطی لگ جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں گے اور عورتیں تالی بجا کر امام کو متنبہ کر سکتی ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ مارکر۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ عورت کی بلا ضرورت مردوں کو آواز نہ سنائی دے۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو پھر اس کا جواز ملتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین سے آکر مسائل دریافت کرتے اور وہ بتایا کرتی تھیں، لیکن اس صورت میں عورت کو نرم انداز اپنانے کی اجازت نہیں۔ روایت کے آخر کے الفاظ ’’مَنْ اَشَارَ فِیْ صَلَاتِهٖ‘‘ یہ صحیح ثابت نہیں ہیں۔ (سنن ابی داود، رقم : ۹۴۴۔ سلسلة الضعیفة، رقم : ۱۱۰۴)
تخریج : بخاري، کتاب الصلة، باب التصفیق للنساء، رقم: ۱۲۰۳۔ مسلم، کتاب الصلاة، باب تسبیح الرجل وتصفیق المراة الخ، رقم: ۴۲۲۔ سنن ابي داود، رقم: ۹۳۹۔ سنن نسائي، رقم: ۱۲۰۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۱۰۳۴۔ مسند احمد: ۲؍ ۲۴۱۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۲۲۶۲۔ صحیح ابن خزیمة، رقم: ۸۹۴۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دوران نماز امام کو غلطی لگ جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں گے اور عورتیں تالی بجا کر امام کو متنبہ کر سکتی ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ مارکر۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ عورت کی بلا ضرورت مردوں کو آواز نہ سنائی دے۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو پھر اس کا جواز ملتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین سے آکر مسائل دریافت کرتے اور وہ بتایا کرتی تھیں، لیکن اس صورت میں عورت کو نرم انداز اپنانے کی اجازت نہیں۔ روایت کے آخر کے الفاظ ’’مَنْ اَشَارَ فِیْ صَلَاتِهٖ‘‘ یہ صحیح ثابت نہیں ہیں۔ (سنن ابی داود، رقم : ۹۴۴۔ سلسلة الضعیفة، رقم : ۱۱۰۴)