مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 18

كِتَابُ العِلْمِ بَابٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَحْسَبُهُ رَفَعَهُ قَالَ: ((مَنْهُومَانِ لَا يَقْضِي اِحَدَهَمَا هَمَّتُهُ ، مَنْهُومٌ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لَا يَقْضِي نَهْمَتُهُ، وَمَنْهُومٌ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا لَا تَنْقَضِي نَهْمَتُهُ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 18

علم کی اہمیت و فضیلت کا بیان باب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوع بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو حریص ہیں، ان دونوں میں سے کسی ایک کی حرص ختم نہیں ہوتی: طلب علم میں حرص رکھنے والا، اس کی حرص ختم نہیں ہوتی، طلب مال میں حرص رکھنے والا اس کی حرص بھی ختم نہیں ہوتی۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا طالب علم اور طالب دنیا ان دونوں کی حرص ختم نہیں ہوتی، لیکن ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ کیونکہ علم کا طالب اللہ کی رضامندی کے لیے آگے بڑھتا ہے اور دنیا کا لالچی سرکشی اور خود پسندی میں آگے بڑھتا ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو قسم کے لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے: ایک صاحب علم اور دوسرا صاحب دنیا۔ اور نہ ہی وہ درجہ میں برابر ہوسکتے ہیں، کیونکہ صاحب علم رب رحمن کو راضی کرنے میں بہت آگے ہوتا ہے اور صاحب دنیا سرکشی میں بہت آگے نکلا ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔ ﴿کَلَّا ٓاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی o اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی o ﴾ (العلق: ۶،۷) ’’ہرگز نہیں بے شک آدمی سرکش بن جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا۔‘‘ راوی کہتے ہیں اور مزید یہ آیت تلاوت کی: ﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ (الفاطر:۲۸) ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ ( سنن دارمي، رقم :۳۳۲) علم کے اضافہ کے لیے دعا کا خود اللہ ذوالجلال نے حکم دیا ہے، ﴿وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ (طٰہٰ: ۱۱۶) انسان کی مال کی حرص کے متعلق۔ (مزید دیکھئے حدیث وشرح نمبر: ۹۳۴)
تخریج : سنن دارمي، رقم: ۳۳۴۔ قال حسین سلیم اسد: اسناده صحیح إلی الحسن البصري صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۶۶۲۴۔ مستدرك حاکم: ۱؍ ۱۶۹۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا طالب علم اور طالب دنیا ان دونوں کی حرص ختم نہیں ہوتی، لیکن ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ کیونکہ علم کا طالب اللہ کی رضامندی کے لیے آگے بڑھتا ہے اور دنیا کا لالچی سرکشی اور خود پسندی میں آگے بڑھتا ہے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو قسم کے لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے: ایک صاحب علم اور دوسرا صاحب دنیا۔ اور نہ ہی وہ درجہ میں برابر ہوسکتے ہیں، کیونکہ صاحب علم رب رحمن کو راضی کرنے میں بہت آگے ہوتا ہے اور صاحب دنیا سرکشی میں بہت آگے نکلا ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔ ﴿کَلَّا ٓاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی o اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی o ﴾ (العلق: ۶،۷) ’’ہرگز نہیں بے شک آدمی سرکش بن جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ وہ دولت مند ہوگیا۔‘‘ راوی کہتے ہیں اور مزید یہ آیت تلاوت کی: ﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ (الفاطر:۲۸) ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ ( سنن دارمي، رقم :۳۳۲) علم کے اضافہ کے لیے دعا کا خود اللہ ذوالجلال نے حکم دیا ہے، ﴿وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ (طٰہٰ: ۱۱۶) انسان کی مال کی حرص کے متعلق۔ (مزید دیکھئے حدیث وشرح نمبر: ۹۳۴)