مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 163

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ عَمِّهِ، يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ أَعْمَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الصَّلَاةِ فَسَأَلَهُ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فِي بَيْتِهِ فَأَذِنَ لَهُ، فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ: ((هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟)) فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَأَجِبْ)) .

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 163

نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ایک نابینا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا: میرا ایسا کوئی قائد نہیں جو کہ مجھے نماز کے لیے لے آئے، پس اس نے آپ سے درخواست کی کہ وہ اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں، آپ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ واپس مڑا تو آپ نے اسے بلا کر فرمایا: ’’کیا تم نماز کے لیے اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر نماز کے لیے آؤ۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے نماز باجماعت پڑھنے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا جب ایک اندھے شخص کے لیے ترک جماعت کی رخصت نہیں تو بینا کے لیے تو بالاولیٰ رخصت نہیں۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۱؍ ۴۷۴) مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جماعت کے واجب عین ہونے کے متعلق حدیث (کی دلالت) واضح ہے اسے چھوڑنے والا نمازی گناہ گار ہے۔ (مرعاة المفاتیح: ۳؍ ۴۸۸) سنن ابی داود میں ہے یہ نابینا صحابی سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔ (سنن ابی داود، رقم : ۵۵۳) نماز باجماعت کی اہمیت دیگر کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک سالمی رضی اللہ عنہ کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۷۵۴) ’’حجة اللہ البالغة‘‘ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو رخصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔
تخریج : مسلم، کتاب المساجد، باب یجب ایتان المسجد الخ، رقم: ۶۵۳۔ سنن ابي داود، کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترك الجماعة، رقم: ۵۵۲۔ سنن نسائي، رقم: ۸۵۰۔ مذکورہ حدیث سے نماز باجماعت پڑھنے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا جب ایک اندھے شخص کے لیے ترک جماعت کی رخصت نہیں تو بینا کے لیے تو بالاولیٰ رخصت نہیں۔ (فتاویٰ اسلامیة: ۱؍ ۴۷۴) مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جماعت کے واجب عین ہونے کے متعلق حدیث (کی دلالت) واضح ہے اسے چھوڑنے والا نمازی گناہ گار ہے۔ (مرعاة المفاتیح: ۳؍ ۴۸۸) سنن ابی داود میں ہے یہ نابینا صحابی سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔ (سنن ابی داود، رقم : ۵۵۳) نماز باجماعت کی اہمیت دیگر کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک سالمی رضی اللہ عنہ کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۷۵۴) ’’حجة اللہ البالغة‘‘ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو رخصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔