كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، وَالْمُلَائِيُّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ يَزِيدَ
نماز کےاحکام ومسائل
باب
فضل بن موسیٰ اور الملائی نے اس اسناد سے اسی مثل روایت کیا ہے۔
تشریح :
مذکورہ بالا حدیث کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں باجماعت نماز چھوڑ کر گھروں میں چھپے رہنے والوں کو نکالنے کی غرض سے امام یا اس کے نائب کو جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۱۳۰)
علامہ عینی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے ماخوذ کئی فوائد بیان کیے ہیں۔
(۱).... ہمیشہ سزا دینے سے قبل وعید کو مقدم رکھنا چاہے، اس لیے کہ اگر اصلاح فقط ڈانٹ ڈپٹ اور مختصر سزا سے ہو جائے تو بجائے بڑی سزا دینے کے اسی پر اکتفا کیا جائے۔
(۲).... حق کی وجہ سے کسی بھی شخص کو اس کے گھر سے نکالا جا سکتا ہے جب کہ وہ گھر میں روپوش ہوئے بیٹھا ہو اور اسے نکالنے کے لیے ہر ممکنہ طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ جلانے کا ارادہ فرمایا تھا۔
(۳).... مجرم کی غفلت پر گرفت کرنی چاہیے۔ (عمدة القاری: ۴؍ ۳۳۳، ۳۳۴)
علامہ ابوبکر کا سانی حنفی باجماعت نماز کے وجوب کے دلائل کے ضمن میں اسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ایسی وعید تو واجب ترک کرنے پر ہی ملتی ہے۔ (بدائع الصنائع: ۱؍۱۵۵)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ظاہر ہے کہ جو شخص کسی امر مستحب یا فرض کفایہ سے پیچھے رہے تو اسے اس طرح سرزنش نہیں کی جا سکتی۔ (فتاویٰ اسلامیة : ۱؍ ۴۷۴)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے، ا س کا سبب یہ ہے کہ اگر باجماعت نماز ادا کرنا سنت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے تارک کے لیے جھلسا دینے والی اتنی غضبناک وعید (قطعاً) بیان نہ فرماتے۔ اور اگر یہ فعل فرض کفایہ ہوتا تو پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ جو لوگ شریک تھے ان ہی کے لیے کافی تھا کہ وہ ایک ساتھ ہو کر یہ فرض نبھا دیں، اتنے تکلّفات کی کیا ضرورت تھی کہ لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جائے اور ان میں سے کسی ایک کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کر کے لوگوں سمیت ان کے گھروں کو نظر آتش کیا جائے، یعنی ایسی باتیں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی لیے بعض فقہاء نے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ جن فقہاء کرام نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے وہ عطاء، اوزاعی، احمد، ابو ثور، ابن خزیمہ، ابن المنذر، ابن حبان اور امام بخاریs ہیں۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۱۲۵، ۱۲۹)
تخریج :
انظر ما قبله۔
مذکورہ بالا حدیث کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں باجماعت نماز چھوڑ کر گھروں میں چھپے رہنے والوں کو نکالنے کی غرض سے امام یا اس کے نائب کو جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۱۳۰)
علامہ عینی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے ماخوذ کئی فوائد بیان کیے ہیں۔
(۱).... ہمیشہ سزا دینے سے قبل وعید کو مقدم رکھنا چاہے، اس لیے کہ اگر اصلاح فقط ڈانٹ ڈپٹ اور مختصر سزا سے ہو جائے تو بجائے بڑی سزا دینے کے اسی پر اکتفا کیا جائے۔
(۲).... حق کی وجہ سے کسی بھی شخص کو اس کے گھر سے نکالا جا سکتا ہے جب کہ وہ گھر میں روپوش ہوئے بیٹھا ہو اور اسے نکالنے کے لیے ہر ممکنہ طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ جلانے کا ارادہ فرمایا تھا۔
(۳).... مجرم کی غفلت پر گرفت کرنی چاہیے۔ (عمدة القاری: ۴؍ ۳۳۳، ۳۳۴)
علامہ ابوبکر کا سانی حنفی باجماعت نماز کے وجوب کے دلائل کے ضمن میں اسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ایسی وعید تو واجب ترک کرنے پر ہی ملتی ہے۔ (بدائع الصنائع: ۱؍۱۵۵)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ظاہر ہے کہ جو شخص کسی امر مستحب یا فرض کفایہ سے پیچھے رہے تو اسے اس طرح سرزنش نہیں کی جا سکتی۔ (فتاویٰ اسلامیة : ۱؍ ۴۷۴)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے، ا س کا سبب یہ ہے کہ اگر باجماعت نماز ادا کرنا سنت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے تارک کے لیے جھلسا دینے والی اتنی غضبناک وعید (قطعاً) بیان نہ فرماتے۔ اور اگر یہ فعل فرض کفایہ ہوتا تو پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ جو لوگ شریک تھے ان ہی کے لیے کافی تھا کہ وہ ایک ساتھ ہو کر یہ فرض نبھا دیں، اتنے تکلّفات کی کیا ضرورت تھی کہ لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جائے اور ان میں سے کسی ایک کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کر کے لوگوں سمیت ان کے گھروں کو نظر آتش کیا جائے، یعنی ایسی باتیں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی لیے بعض فقہاء نے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ جن فقہاء کرام نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے وہ عطاء، اوزاعی، احمد، ابو ثور، ابن خزیمہ، ابن المنذر، ابن حبان اور امام بخاریs ہیں۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۱۲۵، ۱۲۹)