مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 159

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَالَ الْإِمَامُ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ [الفاتحة: 7] فَوَافَقَ آمِينُ أَهْلِ الْأَرْضِ بِآمِينِ الْمَلَائِكَةِ أَهْلِ السَّمَاءِ غَفَرَ اللَّهُ لِلْعَبْدِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَثَلُ مَنْ لَا يَقُولُ آمِينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ غَزَا مَعَ قَوْمٍ فَأَقْرَعُوا فَخَرَجَتْ سِهَامُهُمْ فَلَمْ يَخْرُجْ سَهْمُهُ، فَقَالَ: مَا لِيَ لَا يَخْرُجُ سَهْمِي؟ فَقِيلَ: إِنَّكَ لَمْ تَقُلْ آمِينَ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ الْإِمَامُ إِذَا قَالَ: ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ [الفاتحة: 7] جُهِرَ بِآمِينَ.

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 159

نماز کےاحکام ومسائل باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امام ﴿وَلَا الضَّآلِّینَ﴾ کہے اور زمین والوں کا آمین کہنا آسمان والوں کے آمین کہنے کے ساتھ ہو جائے تو اللہ بندے کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے، اور وہ شخص جو آمین نہیں کہتا اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ لوگوں کے ساتھ جہادی سفر کیا تو انہوں نے قرعہ اندازی کی، پس ان کا حصہ اس کے حصے نکلنے سے پہلے نکل آیا، تو اس نے کہا: کیا وجہ ہے کہ میرا حصہ نہیں نکلا؟ اسے بتایا گیا: تم نے آمین نہیں کہی۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امام کا معمول تھا کہ جب وہ ﴿وَلَا الضَّآلِّینَ﴾ کہتا تو بلند آواز کے ساتھ آمین کہتا۔
تشریح : مذکورہ روایت کا پہلا حصہ صحیح ہے جبکہ اس کا آخری حصہ ضعیف ہے، جس میں مثال بیان کی گئی ہے۔ (ضعیف ترغیب وترهیب: ۲۶۹) مذکورہ حدیث سے نماز میں آمین کہنے کی فضیلت ثابت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ نماز میں آمین کہنی چاہیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ آمین کہنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، بلکہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ آمین کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں ہے کہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اسی طرح حقوق العباد بھی معاف نہیں ہوتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد ہے کہ صغیرہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں نہ کہ کبیرہ، اسی وجہ سے (مِنْ ذَنْبِهٖ) میں (مِنْ) تبعیضیہ ہے نہ کہ بیانیہ۔ لہٰذا حدیث کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ اس کے بعض گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۵) زمین والوں کا آسمان والوں کی آمین سے مل جانے کا مطلب کیا ہے؟ علماء نے اس کی تشریح مختلف انداز سے کی ہے۔ وقت میں موافقت یعنی جس وقت فرشتے آمین کہیں اسی وقت نمازی آمین کہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ ابن منیر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: دراصل بندوں کا فرشتوں سے قول وزمان میں موافق ہونا، اس کی حکمت یہ ہے کہ مقتدیوں کو بیدار رکھا جائے تاکہ وہ نماز میں غفلت نہ برتیں، کیونکہ فرشتے غافل نہیں ہوتے، وہ وقت پر آمین کہتے ہیں، پس اسی کی آمین ان سے موافقت کرے گی جو بیدار ہوگا۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۵) آمین کا مطلب کیا ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لفظ (آمین) (صَہٍ) کے لفظ کی طرح اسمائے افعال میں سے ہے اور جمہور علماء کی رائے میں اس کا معنی یہ ہے، اے اللہ قبول فرما۔ (آمین) کے معنی کے بارے میں کچھ دیگر اقوال بھی ہیں، لیکن سب کا ماحاصل یہی معنی ہے۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۲)
تخریج : بخاري، کتاب الاذان، باب جهر الماموم بالتامین، رقم: ۷۸۲۔ مسلم، کتاب الصلاة، باب التسبیح والتحمید والتامین، رقم: ۴۱۰۔ سنن ابي داود، رقم: ۹۳۴۔ سنن نسائي، رقم: ۹۲۷۔ مذکورہ روایت کا پہلا حصہ صحیح ہے جبکہ اس کا آخری حصہ ضعیف ہے، جس میں مثال بیان کی گئی ہے۔ (ضعیف ترغیب وترهیب: ۲۶۹) مذکورہ حدیث سے نماز میں آمین کہنے کی فضیلت ثابت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ نماز میں آمین کہنی چاہیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ آمین کہنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، بلکہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ آمین کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں ہے کہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اسی طرح حقوق العباد بھی معاف نہیں ہوتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد ہے کہ صغیرہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں نہ کہ کبیرہ، اسی وجہ سے (مِنْ ذَنْبِهٖ) میں (مِنْ) تبعیضیہ ہے نہ کہ بیانیہ۔ لہٰذا حدیث کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ اس کے بعض گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۵) زمین والوں کا آسمان والوں کی آمین سے مل جانے کا مطلب کیا ہے؟ علماء نے اس کی تشریح مختلف انداز سے کی ہے۔ وقت میں موافقت یعنی جس وقت فرشتے آمین کہیں اسی وقت نمازی آمین کہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ ابن منیر رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: دراصل بندوں کا فرشتوں سے قول وزمان میں موافق ہونا، اس کی حکمت یہ ہے کہ مقتدیوں کو بیدار رکھا جائے تاکہ وہ نماز میں غفلت نہ برتیں، کیونکہ فرشتے غافل نہیں ہوتے، وہ وقت پر آمین کہتے ہیں، پس اسی کی آمین ان سے موافقت کرے گی جو بیدار ہوگا۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۵) آمین کا مطلب کیا ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لفظ (آمین) (صَہٍ) کے لفظ کی طرح اسمائے افعال میں سے ہے اور جمہور علماء کی رائے میں اس کا معنی یہ ہے، اے اللہ قبول فرما۔ (آمین) کے معنی کے بارے میں کچھ دیگر اقوال بھی ہیں، لیکن سب کا ماحاصل یہی معنی ہے۔ ( فتح الباري: ۲؍ ۲۶۲)