كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اخْرُجْ فَنَادِ فِي النَّاسِ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَمَا زَادَ))
نماز کےاحکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’باہر جا کر اعلان کرو کہ سورۂ الفاتحہ اور اس سے زائد قراء ت کے بغیر کوئی نماز نہیں (ہوتی)۔‘‘
تشریح :
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس میں موجود باتیں دوسری صحیح روایت سے ثابت ہیں کہ منفرد کے لیے سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانی ضروری ہے اور سورۃ فاتحہ امام و مقتدی ہر ایک کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَاْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ)) ( بخاري، رقم : ۷۵۶).... ’’جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔ـ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے: ((لَا تُقْبَلُ صَلٰوۃٌ لَا یُقْرَأُ فِیْهَا بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ)) (فتح الباری شرح حدیث: ۷۵۶).... ’’جس نماز میں ام القرآن نہ پڑھی جائے وہ قبول نہیں ہوتی۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے : ((مَنْ صَلّٰی صَلَاةً لَمْ یَقْرَأ فِیْهَا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَهِیَ خِدَاجٌ یَقُوْلُهَا ثَلَاثًا۔)) (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، رقم : ۳۹۵۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۲۱).... ’’جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ونامکمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی۔‘‘
معلوم ہوا ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے خواہ کوئی مقتدی ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ اس کی نماز ناقص ہے جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا، اس روایت کے راوی ابو سائب رحمہ اللہ نے کہا: اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! ((اَحْیَانًا اَکُوْنُ وَرَآءَ الْاِمَامِ۔)) ’’میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں‘‘ تو انہوں نے میری کلائی دبائی اور کہا: اِقْرَأْ بِھَا یَا فَارْسِیُّ فِیْ نَفْسِكَ، (مسلم، رقم : ۳۹۵۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۲۱) ’’اے فارسی! اسے اپنے نفس میں (آہستہ) پڑھا کرو۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ خَلْفَ الْاِمَامِ)) (بیہقی فی کتاب القراء ۃ: ۵۶) ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی۔‘‘ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارلعلوم دیوبند نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فص الختام: ۱۴۷)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر رکعت میں امام مقتدی اور منفرد سب کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے، خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو فرض ہو یا نفل ہو۔
امام مالک اور امام احمد; فرماتے ہیں: جہری نمازوں میں نہیں، بلکہ سرّی نمازوں میں سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی جبکہ احناف کا موقف ہے کہ مقتدی فاتحہ کی قراء ت نہیں کرے گا، خواہ سرّی نماز ہو یا جہری ہو۔ (المغنی: ۱؍ ۳۷۶۔ کتاب الام: ۱؍ ۲۱۰۔ الهدایہ: ۱؍ ۰۴۸۔ بدایۃ المجتهد: ۱؍ ۱۱۹)
امام احمد رحمہ اللہ کی دلیل: .... سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہری نماز سے فراغت کے بعد پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراء ت کی ہے؟
ایک آدمی نے اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں قرآن کے ساتھ جھگڑ رہا ہوں۔‘‘ راوی کہتا ہے: اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراء ت سے باز آگئے۔ (صحیح ابوداؤد، رقم : ۷۳۶۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۸۴۸)
مذکورہ حدیث کی وضاحت راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود فرما دی ہے کہ جب کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو انہوں نے جواب میں کہا: اے فارسی! اسے اپنے نفس میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ (ابوداود: ۸۲۱)
معلوم ہوا امام کے پیچھے جہری نمازوں میں صحابہ آواز نکال کر پڑھنے سے باز آگئے تھے، جبکہ ہلکی آواز سے فاتحہ پڑھتے تھے۔
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الصلاة، باب من ترك القراءة في صلاته بفاتحةالکتاب، رقم: ۸۲۰۔ فیه جعفر بن میمون وهو ضعیفٌ ضعفه احمد، وابن معین والنجاري والجمهور۔
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس میں موجود باتیں دوسری صحیح روایت سے ثابت ہیں کہ منفرد کے لیے سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانی ضروری ہے اور سورۃ فاتحہ امام و مقتدی ہر ایک کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَاْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ)) ( بخاري، رقم : ۷۵۶).... ’’جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔ـ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے: ((لَا تُقْبَلُ صَلٰوۃٌ لَا یُقْرَأُ فِیْهَا بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ)) (فتح الباری شرح حدیث: ۷۵۶).... ’’جس نماز میں ام القرآن نہ پڑھی جائے وہ قبول نہیں ہوتی۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے : ((مَنْ صَلّٰی صَلَاةً لَمْ یَقْرَأ فِیْهَا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَهِیَ خِدَاجٌ یَقُوْلُهَا ثَلَاثًا۔)) (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، رقم : ۳۹۵۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۲۱).... ’’جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ونامکمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی۔‘‘
معلوم ہوا ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے خواہ کوئی مقتدی ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ اس کی نماز ناقص ہے جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا، اس روایت کے راوی ابو سائب رحمہ اللہ نے کہا: اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! ((اَحْیَانًا اَکُوْنُ وَرَآءَ الْاِمَامِ۔)) ’’میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں‘‘ تو انہوں نے میری کلائی دبائی اور کہا: اِقْرَأْ بِھَا یَا فَارْسِیُّ فِیْ نَفْسِكَ، (مسلم، رقم : ۳۹۵۔ سنن ابي داود، رقم : ۸۲۱) ’’اے فارسی! اسے اپنے نفس میں (آہستہ) پڑھا کرو۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ خَلْفَ الْاِمَامِ)) (بیہقی فی کتاب القراء ۃ: ۵۶) ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی۔‘‘ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارلعلوم دیوبند نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فص الختام: ۱۴۷)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر رکعت میں امام مقتدی اور منفرد سب کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے، خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو فرض ہو یا نفل ہو۔
امام مالک اور امام احمد; فرماتے ہیں: جہری نمازوں میں نہیں، بلکہ سرّی نمازوں میں سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی جبکہ احناف کا موقف ہے کہ مقتدی فاتحہ کی قراء ت نہیں کرے گا، خواہ سرّی نماز ہو یا جہری ہو۔ (المغنی: ۱؍ ۳۷۶۔ کتاب الام: ۱؍ ۲۱۰۔ الهدایہ: ۱؍ ۰۴۸۔ بدایۃ المجتهد: ۱؍ ۱۱۹)
امام احمد رحمہ اللہ کی دلیل: .... سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہری نماز سے فراغت کے بعد پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراء ت کی ہے؟
ایک آدمی نے اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں قرآن کے ساتھ جھگڑ رہا ہوں۔‘‘ راوی کہتا ہے: اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراء ت سے باز آگئے۔ (صحیح ابوداؤد، رقم : ۷۳۶۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۸۴۸)
مذکورہ حدیث کی وضاحت راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود فرما دی ہے کہ جب کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو انہوں نے جواب میں کہا: اے فارسی! اسے اپنے نفس میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ (ابوداود: ۸۲۱)
معلوم ہوا امام کے پیچھے جہری نمازوں میں صحابہ آواز نکال کر پڑھنے سے باز آگئے تھے، جبکہ ہلکی آواز سے فاتحہ پڑھتے تھے۔