كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا شُعْبَةُ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَالْمَسِيحِ الدَّجَّالِ
نماز کےاحکام ومسائل
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عذاب جہنم، عذاب قبر اور مسیح دجال سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔
تشریح :
دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی شخص تشہد پڑھ چکے تو چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے وہ کہے:
((اَللّٰهُمَّ انِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَالِ۔)) (مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۵۸۸)
معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا دعا تشہد کے بعد پڑھنی مسنون ہے۔ مذکورہ حدیث سے جہنم کا اثبات ہوتا ہے اور ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو جہنم کے منکر ہیں۔ جہنم سے تعوذ (پناہ مانگنے) کو مقدم کیا ہے، اس لیے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جس سے بڑھ کر کہیں بھی عذاب نہیں ہوگا۔ ((وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔)) معلوم ہوا کہ قبر کا عذاب بھی برحق ہے اور جو لوگ منکر ہیں ان کو اللہ ذوالجلال سے ڈرنا چاہیے۔ ((فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ۔)) مسیح، ممسوح العین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ اس کی آنکھ نہیں ہوگی اور دائیں آنکھ سے کانا ہوگا۔
دَجَّال، دجل سے ہے جس کا معنی جھوٹ ہے۔ کیونکہ یہ شخص الوہیت کا مدعی ہوگا اور لو گوں کی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ اس سے کچھ خرق عادت کام بھی کروائے گا، جس سے بہت سے لوگ فتنوں میں پڑ جائیں گے۔ اور نیک لوگ اللہ کی توفیق سے اسے پہچان لیں گے۔ اور اس کا فتنہ آخری زمانے میں ہوگا اور یہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
تخریج :
بخاري، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، رقم: ۱۳۷۷۔ مسلم، کتاب المساجد، باب ما یستعاذ منه في صلاة، رقم: ۵۸۸۔ سنن ترمذي، رقم: ۳۶۰۴۔ سنن ابي داود، رقم: ۹۸۳۔ سنن نسائي، رقم: ۵۵۱۷۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی شخص تشہد پڑھ چکے تو چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے وہ کہے:
((اَللّٰهُمَّ انِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَالِ۔)) (مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۵۸۸)
معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا دعا تشہد کے بعد پڑھنی مسنون ہے۔ مذکورہ حدیث سے جہنم کا اثبات ہوتا ہے اور ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو جہنم کے منکر ہیں۔ جہنم سے تعوذ (پناہ مانگنے) کو مقدم کیا ہے، اس لیے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جس سے بڑھ کر کہیں بھی عذاب نہیں ہوگا۔ ((وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔)) معلوم ہوا کہ قبر کا عذاب بھی برحق ہے اور جو لوگ منکر ہیں ان کو اللہ ذوالجلال سے ڈرنا چاہیے۔ ((فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ۔)) مسیح، ممسوح العین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ اس کی آنکھ نہیں ہوگی اور دائیں آنکھ سے کانا ہوگا۔
دَجَّال، دجل سے ہے جس کا معنی جھوٹ ہے۔ کیونکہ یہ شخص الوہیت کا مدعی ہوگا اور لو گوں کی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ اس سے کچھ خرق عادت کام بھی کروائے گا، جس سے بہت سے لوگ فتنوں میں پڑ جائیں گے۔ اور نیک لوگ اللہ کی توفیق سے اسے پہچان لیں گے۔ اور اس کا فتنہ آخری زمانے میں ہوگا اور یہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔