مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 125

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدَّثَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ، فَقَرَأَ ((إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ)) فَسَجَدَ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا هَذِهِ السَّجْدَةُ؟ فَقَالَ: سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ فَلَا أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 125

نماز کےاحکام ومسائل باب ابو رافع نے بیان کیا: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۂ الانشقاق پڑھی اور اس میں سجدہ تلاوت کیا، میں نے کہا: ابوہریرہ! یہ سجدہ کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ’’میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یہ سجدہ کیا ہے، پس میں یہ سجدہ کرتا رہوں گا حتیٰ کہ میں ان سے ملاقات کر لوں۔‘‘
تشریح : مذکورہ حدیث سے سجدہ تلاوت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت نماز کے دوران بھی مسنون ہے خواہ نماز فرضی ہو یا نفلی۔ اہل علم کا سجدہ تلاوت کے حکم میں اختلاف ہے، جمہور اسے مستحب کہتے ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے واجب کہتے ہیں۔ (سبل الاسلام: ۱؍ ۴۸۱۔ کتاب الام: ۱؍ ۲۵۲۔ بدایۃ المجتہد: ۱؍ ۱۷۴) جمہور کی دلیل یہ حدیث ہے، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم تلاوت کی تو آپ نے اس میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ ( بخاري، رقم : ۱۰۷۳۔ مسلم، رقم : ۵۷۷۔ سنن ابي داود، رقم : ۱۴۰۴) اور اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے جمعہ والے دن منبر پر سورۂ نحل کی تلاوت کی حتیٰ کہ سجدہ کی آیت آئی تو نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر جب اگلا جمعہ آیا تو انہوں نے دوبارہ وہی سورت تلاوت کی حتیٰ کہ جب سجدے کی آیت آئی تو کہا: اے لوگو! یقینا ہمیں ان سجدوں کا حکم نہیں دیا گیا، لہٰذا جو شخص یہ سجدے کرے گا اسے اجر و ثواب ملے گا اور جو یہ سجدے نہیں کرے گا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( بخاري، رقم : ۱۰۷۷۔ مصنف عبدالرزاق، رقم : ۵۸۸۹) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے وجوب سجدہ تلاوت کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ابن آدم کسی سجدہ کی آیت پر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے میری ہلاکت ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۱۱۵۔ سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۰۵۲) اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں۔ راجح موقف جمہور ہی کا ہے شیخ ابن باز، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام نوویs بھی اسی کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت نہ تو قاری پر واجب ہے اور نہ ہی سامع پر، البتہ اگر کوئی کرے تو افضل اور باعث اجر و ثواب ہے۔ (توضیح الاحکام: ۲؍ ۳۶۵۔ شرح مسلم للنووی: ۳؍ ۳۸۸۔ فتاوی اسلامیہ: ۱؍ ۳۵۳) اس حدیث سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا متبع سنت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب سجود القراٰن، باب من قرأ السجدة في الصلاة، رقم: ۱۰۷۸۔ مسلم، کتاب المساجد، باب سجود التلاوة، رقم: ۵۷۸۔ سنن نسائي، رقم: ۹۶۸۔ مذکورہ حدیث سے سجدہ تلاوت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت نماز کے دوران بھی مسنون ہے خواہ نماز فرضی ہو یا نفلی۔ اہل علم کا سجدہ تلاوت کے حکم میں اختلاف ہے، جمہور اسے مستحب کہتے ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے واجب کہتے ہیں۔ (سبل الاسلام: ۱؍ ۴۸۱۔ کتاب الام: ۱؍ ۲۵۲۔ بدایۃ المجتہد: ۱؍ ۱۷۴) جمہور کی دلیل یہ حدیث ہے، سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم تلاوت کی تو آپ نے اس میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ ( بخاري، رقم : ۱۰۷۳۔ مسلم، رقم : ۵۷۷۔ سنن ابي داود، رقم : ۱۴۰۴) اور اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے جمعہ والے دن منبر پر سورۂ نحل کی تلاوت کی حتیٰ کہ سجدہ کی آیت آئی تو نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر جب اگلا جمعہ آیا تو انہوں نے دوبارہ وہی سورت تلاوت کی حتیٰ کہ جب سجدے کی آیت آئی تو کہا: اے لوگو! یقینا ہمیں ان سجدوں کا حکم نہیں دیا گیا، لہٰذا جو شخص یہ سجدے کرے گا اسے اجر و ثواب ملے گا اور جو یہ سجدے نہیں کرے گا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( بخاري، رقم : ۱۰۷۷۔ مصنف عبدالرزاق، رقم : ۵۸۸۹) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے وجوب سجدہ تلاوت کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ابن آدم کسی سجدہ کی آیت پر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے میری ہلاکت ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، رقم : ۱۱۵۔ سنن ابن ماجہ، رقم : ۱۰۵۲) اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں۔ راجح موقف جمہور ہی کا ہے شیخ ابن باز، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام نوویs بھی اسی کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت نہ تو قاری پر واجب ہے اور نہ ہی سامع پر، البتہ اگر کوئی کرے تو افضل اور باعث اجر و ثواب ہے۔ (توضیح الاحکام: ۲؍ ۳۶۵۔ شرح مسلم للنووی: ۳؍ ۳۸۸۔ فتاوی اسلامیہ: ۱؍ ۳۵۳) اس حدیث سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا متبع سنت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔