مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 109

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ))

ترجمہ مسند اسحاق بن راہویہ - حدیث 109

طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل باب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس چیز کو آگ نے چھوا ہو (آگ پر پکی ہو) اس (کے کھانے پینے) سے وضو کرو۔‘‘
تشریح : ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، پھر نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور چھری کو پھینک دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔ ( بخاري، کتاب الوضوء، رقم : ۲۰۸۔ اسی طرح دیکھئے حدیث نمبر: ۶۵۲) بظاہر دونوں احادیث میں تعارض نظر آتا ہے۔ لیکن پہلی روایت منسوخ اور دوسری ناسخ ہے۔ جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ترک کر دینا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں معاملات میں سے آخری تھا۔ ( سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم : ۱۹۲۔ سنن نسائي، رقم : ۱۸۵۔ صحیح ابي داود، رقم : ۱۷۷)
تخریج : مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء مما مست النار، رقم: ۳۵۲۔ سنن ابي داود، رقم: ۱۹۴۔ سنن ترمذي، رقم: ۷۹۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۴۸۵۔ ایک دوسری حدیث میں ہے سیّدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے شانے کا گوشت کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، پھر نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور چھری کو پھینک دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔ ( بخاري، کتاب الوضوء، رقم : ۲۰۸۔ اسی طرح دیکھئے حدیث نمبر: ۶۵۲) بظاہر دونوں احادیث میں تعارض نظر آتا ہے۔ لیکن پہلی روایت منسوخ اور دوسری ناسخ ہے۔ جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ترک کر دینا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں معاملات میں سے آخری تھا۔ ( سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم : ۱۹۲۔ سنن نسائي، رقم : ۱۸۵۔ صحیح ابي داود، رقم : ۱۷۷)