كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، نا الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ مِنَ الْجَنَابَةِ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: لَقَدْ كَلَّفَهُنَّ تَعَبًا، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ لَقَدْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ فَمَا أَزِيدُ عَلَى ثَلَاثِ إِفْرَاغَاتٍ "
طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل
باب
عبید بن عمیر نے بیان کیا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ خواتین کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب وہ غسل جنابت کریں تو اپنے سر کے بال کھول لیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے تو انہیں بڑی مشقت میں مبتلا کر دیا ہے، وہ انہیں سر مونڈ ڈالنے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برتن سے غسل کیا کرتی تھی، پس میں صرف تین لپ پانی ہی ڈالا کرتی تھی۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورت نے اگر بالوں کو مینڈیوں کی صورت میں باندھا ہو تو غسل جنابت میں انہیں کھولنا ضروری نہیں، لیکن اگر بال ڈھیلے ڈھالے باندھے ہوں یا کھلے ہوں تو بالوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے۔
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بالوں کو باندھ لیتی ہوں، تو کیا میں غسل جنابت کے لیے انہیں کھولوں؟ اور ایک روایت میں غسل حیض کا ذکر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہیں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال لو۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض، رقم : ۳۳۰)
اس میں غسل حیض کا بھی تذکرہ ہے۔ ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے لیے مینڈیاں کھولنے کا حکم منقول ہے۔ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۸۸)
ان دونوں متعارض روایات کے درمیان امام صنعانی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ غسل حیض کے لیے مینڈیاں کھولنا مستحب ہے واجب نہیں۔ (سبل السلام: ۱؍۱۹۹)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس حدیث میں مینڈیاں کھولنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا ظاہر تو وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۴۱۸)
تخریج :
مسلم، کتاب الحیض، باب حکم ضفائر المغتسله، رقم: ۳۳۱۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۶۰۴۔ مسند احمد: ۶؍ ۴۳۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورت نے اگر بالوں کو مینڈیوں کی صورت میں باندھا ہو تو غسل جنابت میں انہیں کھولنا ضروری نہیں، لیکن اگر بال ڈھیلے ڈھالے باندھے ہوں یا کھلے ہوں تو بالوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے۔
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بالوں کو باندھ لیتی ہوں، تو کیا میں غسل جنابت کے لیے انہیں کھولوں؟ اور ایک روایت میں غسل حیض کا ذکر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہیں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال لو۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض، رقم : ۳۳۰)
اس میں غسل حیض کا بھی تذکرہ ہے۔ ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے لیے مینڈیاں کھولنے کا حکم منقول ہے۔ (سلسلة الصحیحة، رقم : ۱۸۸)
ان دونوں متعارض روایات کے درمیان امام صنعانی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ غسل حیض کے لیے مینڈیاں کھولنا مستحب ہے واجب نہیں۔ (سبل السلام: ۱؍۱۹۹)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس حدیث میں مینڈیاں کھولنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا ظاہر تو وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے۔ ( فتح الباري: ۱؍ ۴۱۸)