كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، - أَوْ غَيْرُهُ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ الْمُخَارِقِ، عَنْ لُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ فَوَضَعَهُ فِي حِجْرِهِ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي إِزَارَكَ كَيْ أَغْسِلَهُ، فَقَالَ: ((إِنَّمَا يُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ، وَيُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ))
طہارت اور پاکیزگی کے احکام ومسائل
باب
لبابہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو لیا اور انہیں اپنی گود میں بٹھا لیا، انہوں نے آپ پر پیشاب کر دیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا ازار مجھے دیں تاکہ میں اسے دھودوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے، اور لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جاتا ہے۔‘‘
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا شیر خوارگی کی عمر میں لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کا حکم مختلف ہے۔ اگر شیر خوار بچہ کپڑے پر پیشاب کردے تو کپڑا دھونا ضروری نہیں اگر بچی کرے تو کپڑا دھونا چاہیے۔ اس سے حنفیہ اور مالکیہ کے موقف کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں: دودھ پیتے لڑکے اور لڑکی دونوں کے پیشاب والے کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ لیکن چھینٹے مارنا صرف اسی وقت تک کفایت کرے گا جب تک بچہ دودھ پر اکتفاء کرتا ہے۔ سیّدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک وہ دونوں کھانا نہ کھاتے ہوں۔ جب کھانا کھانے لگ جائیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۳۷۸)
دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنے کی جو رخصت ہے اس میں حکمت کیا ہے۔ اصل حکمت تو اللہ ذوالجلال ہی جانتے ہیں، تاہم سنن ابن ماجہ میں ہے ابوالیمان مصری بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے مذکورہ حدیث نبوی کے متعلق سوال کیا (جس میں یہ حکم ہے کہ) لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور لڑکی کے پیشاب سے کپڑا دھویا جائے (میں نے پوچھا: اس فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ) دونوں پیشاب ایک ہی چیز ہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے۔ پھر کہا: سمجھ گئے؟ میں نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو (انہیں مٹی اور پانی سے پیدا کیا اور) حوا علیہا السلام ان کی چھوٹی پسلی سے پیدا ہوئیں، گویا لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے وجود میں آیا ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے، اب سمجھ گئے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تجھے اس (علم وفہم) سے فائدہ دے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۵۲۵)
تخریج :
أیضاً۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا شیر خوارگی کی عمر میں لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کا حکم مختلف ہے۔ اگر شیر خوار بچہ کپڑے پر پیشاب کردے تو کپڑا دھونا ضروری نہیں اگر بچی کرے تو کپڑا دھونا چاہیے۔ اس سے حنفیہ اور مالکیہ کے موقف کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں: دودھ پیتے لڑکے اور لڑکی دونوں کے پیشاب والے کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ لیکن چھینٹے مارنا صرف اسی وقت تک کفایت کرے گا جب تک بچہ دودھ پر اکتفاء کرتا ہے۔ سیّدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک وہ دونوں کھانا نہ کھاتے ہوں۔ جب کھانا کھانے لگ جائیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے۔ ( سنن ابي داود، رقم : ۳۷۸)
دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنے کی جو رخصت ہے اس میں حکمت کیا ہے۔ اصل حکمت تو اللہ ذوالجلال ہی جانتے ہیں، تاہم سنن ابن ماجہ میں ہے ابوالیمان مصری بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے مذکورہ حدیث نبوی کے متعلق سوال کیا (جس میں یہ حکم ہے کہ) لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور لڑکی کے پیشاب سے کپڑا دھویا جائے (میں نے پوچھا: اس فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ) دونوں پیشاب ایک ہی چیز ہیں؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے۔ پھر کہا: سمجھ گئے؟ میں نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو (انہیں مٹی اور پانی سے پیدا کیا اور) حوا علیہا السلام ان کی چھوٹی پسلی سے پیدا ہوئیں، گویا لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے وجود میں آیا ہے اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے، اب سمجھ گئے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تجھے اس (علم وفہم) سے فائدہ دے۔ (سنن ابن ماجة، رقم : ۵۲۵)