مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 93

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا مِنْدَلٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَهُوَ زَانٍ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 93

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس غلام نے اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے۔‘‘
تشریح : (1) نکاح کی اہمیت: اسلام دین فطرت ہے جس میں فطری تقاضوں کو احسن انداز سے پورا کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔اسی لیے اسلام میں نکاح کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا گیا اور نکاح کرنے والوں کی تحسین و تعریف کی گئی جبکہ نکاح کو بلاوجہ ترک کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمت بیان ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کونکاح کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ))( صحیح بخاري، النکاح، باب من لم یستطع الباء ة فلیصم : 5066، صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت … الخ : 1400۔) ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے یقینا اس سے نظر نیچی رہتی اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔‘‘ دین اسلام میں تبتل (خواتین سے بالکل الگ تھلگ رہنے) کوانتہائی ناپسند کیا گیا، سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبیل کی اجازت چاہی تو آپ علیہ السلام نے انکار فرما دیا۔( صحیح بخاري، النکاح، باب ما یکرهٗ من التبتل والخصاء : 5073، صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت … الخ : 1402۔) مسلم آزاد مردوں اور عورتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے غلاموں اورلونڈیوں کے نکاح کا بھی حکم دیا تاکہ معاشرہ بے راہ راوی کا شکار نہ ہو۔ عصمت و عفت محفوظ رہے اور شرم و حیا کا تحفظ ہو سکے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور : 32) ’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (2) غلام کا آقا کی اجازت کے بغیر نکاح: جس طرح کسی خاتون کے لیے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا درست نہیں ۔ اسی طرح غلام کے لیے آقا و مالک کی اجازت کے بغیر نکاح ممنوع ہے۔ کیونکہ بعد از نکاح غلام کو اپنے بیوی بچوں کو وقت دینا ہوگا، جو ان کا حق ہے۔ جس سے مالک کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ممکن ہے۔ لہٰذا غلام کے لیے لازم ہے کہ قبل از نکاح اپنے مالک سے اجازت لے اور اگر آقا اپنے حقوق میں کچھ کمی کرنے پر آمادہ ہوجائے تو نکاح کر لے ورنہ صبر کرے۔
تخریج : سنن ابي داؤد، النکاح، باب في نکاح العبد بغیر إذن سیدة، رقم الحدیث : 2079، سنن ابن ماجة ، النکاح، باب ترویج العبد بغیر اذن سیده، رقم الحدیث : 1960، امام ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اور درحقیقت یہ موقوف ہے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ ـمحدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ (1) نکاح کی اہمیت: اسلام دین فطرت ہے جس میں فطری تقاضوں کو احسن انداز سے پورا کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔اسی لیے اسلام میں نکاح کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا گیا اور نکاح کرنے والوں کی تحسین و تعریف کی گئی جبکہ نکاح کو بلاوجہ ترک کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمت بیان ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کونکاح کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ))( صحیح بخاري، النکاح، باب من لم یستطع الباء ة فلیصم : 5066، صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت … الخ : 1400۔) ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے یقینا اس سے نظر نیچی رہتی اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔‘‘ دین اسلام میں تبتل (خواتین سے بالکل الگ تھلگ رہنے) کوانتہائی ناپسند کیا گیا، سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبیل کی اجازت چاہی تو آپ علیہ السلام نے انکار فرما دیا۔( صحیح بخاري، النکاح، باب ما یکرهٗ من التبتل والخصاء : 5073، صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت … الخ : 1402۔) مسلم آزاد مردوں اور عورتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے غلاموں اورلونڈیوں کے نکاح کا بھی حکم دیا تاکہ معاشرہ بے راہ راوی کا شکار نہ ہو۔ عصمت و عفت محفوظ رہے اور شرم و حیا کا تحفظ ہو سکے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور : 32) ’’اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (2) غلام کا آقا کی اجازت کے بغیر نکاح: جس طرح کسی خاتون کے لیے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا درست نہیں ۔ اسی طرح غلام کے لیے آقا و مالک کی اجازت کے بغیر نکاح ممنوع ہے۔ کیونکہ بعد از نکاح غلام کو اپنے بیوی بچوں کو وقت دینا ہوگا، جو ان کا حق ہے۔ جس سے مالک کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ممکن ہے۔ لہٰذا غلام کے لیے لازم ہے کہ قبل از نکاح اپنے مالک سے اجازت لے اور اگر آقا اپنے حقوق میں کچھ کمی کرنے پر آمادہ ہوجائے تو نکاح کر لے ورنہ صبر کرے۔