مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 92

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَيَدْخُلُ أَهْلُ النَّارِ النَّارَ، فَيَقُومُ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ فَيَقُولُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ لَا مَوْتَ، يَا أَهْلَ النَّارِ لَا مَوْتَ، كُلٌّ خَالِدٌ فِيمَا هُوَ فِيهِ "

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 92

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت،جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا ان کے درمیان کھڑاہو کر کہے گا: اے اہل جنت! اب موت نہیں ہے۔ اے اہل جہنم! اب موت نہیں ہے۔ ہر کوئی جس جگہ ہے وہاں ہمیشہ رہنے والا ہے۔
تشریح : (1) جنتیوں اورجہنمیوں کی زندگی دائمی ہے: مرنے کے بعد ہر انسان کا آخری ٹھکانہ جنت یا جہنم میں سے ایک ہے۔ اللہ پر ایمان لانے والے اور بعد از ایمان نیک و صالح اعمال کرنے والوں کے لیے آخرت میں انعامات ہیں اور انہیں ہمیشہ کی نعمتوں والی اخروی زندگی حاصل ہو گی جبکہ ایمان کا انکار کرنے والے کفار و مشرکین کے لیے جہنم ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ‎﴿١٠٦﴾‏ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ‎﴿١٠٧﴾‏ ۞ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾ (ھود : 106۔108) ’’تو وہ جو بدبخت ہوئے سو وہ آگ میں ہوں گے اور ان کے لیے اس میں گدھے کی طرف آواز کھینچنا اور نکالنا ہے۔ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ۔ جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ بے شک تیرا رب کر گزرنے والا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ اور رہ گئے وہ جو خوش قسمت بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہنے والے جب تک سارے آسمان و زمین قائم ہیں ۔ مگر جو تیرا رب چاہے ایسا عطیہ ہے جو قطع کیے جانے والا نہیں ہے۔‘‘ قرآن میں متعدد آیات کے اندر اہل جنت و جہنم کا ذکر ہوا تو آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ھم فیھا خلدون‘‘ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ (2) جنت و جہنم میں موت نہیں : جس طرح جنت و جہنم ہمیشہ کے لیے ہیں اسی طرح اہل جنت و جہنم کو بھی دائمی زندگی ملے گی، نہ جنتیوں کی عیش و عشرت ختم ہو گی اور نہ ہی جہنمیوں کے عذاب ختم ہوں گے۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُجَآيُ بِالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَاَنَّهٗ کَبْشٌ اَمْلَحُ فَیُوقَفُ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَیُقَالُ یَا اَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هٰذَا فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا اَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هٰذَا قَالَ فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِهٖ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا اَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَـلَا مَوْتَ وَیَا اَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَـلَا مَوْتَ قَالَ ثُمَّ قَرَاَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ وَاَشَارَ بِیَدِهٖ اِلَی الدُّنْیَا))( صحیح بخاري،التفسیر، سوره کعیعص، باب قوله وانذرهم یوم الحسرة : 4730، صحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمها واهلها، باب النار یدخلها الجبارون : 2849۔) ’’موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں قیامت کے دن لایاجائے گا اور اسے جنت وجہنم کے درمیان لا کر کھڑا کر دیاجائے گا۔ پھر اہل جنت سے پوچھا جائے گا کیا تم اس کو جانتے ہو؟ تووہ گردنیں اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے،ہاں ،یہ موت ہے۔ پھر کہا جائے گا اسے جہنمیو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ تو و ہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو کہیں گے، ہاں ،یہ موت ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اس سے متعلق حکم ہوگا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا اے جنتیو! اب (جنت میں ) ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہیں اور اسے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ پڑھی اور اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔
تخریج : صحیح بخاري، الرقاق، باب یدخل الجنة سبعون الفاً بغیر حساب، رقم الحدیث : 6544، صحیح مسلم، الجنة ونعیمها، باب النار یدخلها الجبارون والجنة یدخلها الضعفاء، رقم الحدیث : 2850۔ (1) جنتیوں اورجہنمیوں کی زندگی دائمی ہے: مرنے کے بعد ہر انسان کا آخری ٹھکانہ جنت یا جہنم میں سے ایک ہے۔ اللہ پر ایمان لانے والے اور بعد از ایمان نیک و صالح اعمال کرنے والوں کے لیے آخرت میں انعامات ہیں اور انہیں ہمیشہ کی نعمتوں والی اخروی زندگی حاصل ہو گی جبکہ ایمان کا انکار کرنے والے کفار و مشرکین کے لیے جہنم ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ‎﴿١٠٦﴾‏ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ‎﴿١٠٧﴾‏ ۞ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾ (ھود : 106۔108) ’’تو وہ جو بدبخت ہوئے سو وہ آگ میں ہوں گے اور ان کے لیے اس میں گدھے کی طرف آواز کھینچنا اور نکالنا ہے۔ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ۔ جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ بے شک تیرا رب کر گزرنے والا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ اور رہ گئے وہ جو خوش قسمت بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہنے والے جب تک سارے آسمان و زمین قائم ہیں ۔ مگر جو تیرا رب چاہے ایسا عطیہ ہے جو قطع کیے جانے والا نہیں ہے۔‘‘ قرآن میں متعدد آیات کے اندر اہل جنت و جہنم کا ذکر ہوا تو آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ھم فیھا خلدون‘‘ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ (2) جنت و جہنم میں موت نہیں : جس طرح جنت و جہنم ہمیشہ کے لیے ہیں اسی طرح اہل جنت و جہنم کو بھی دائمی زندگی ملے گی، نہ جنتیوں کی عیش و عشرت ختم ہو گی اور نہ ہی جہنمیوں کے عذاب ختم ہوں گے۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُجَآيُ بِالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَاَنَّهٗ کَبْشٌ اَمْلَحُ فَیُوقَفُ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَیُقَالُ یَا اَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هٰذَا فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا اَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هٰذَا قَالَ فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ وَیَقُولُونَ نَعَمْ هٰذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِهٖ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا اَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَـلَا مَوْتَ وَیَا اَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَـلَا مَوْتَ قَالَ ثُمَّ قَرَاَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ وَاَشَارَ بِیَدِهٖ اِلَی الدُّنْیَا))( صحیح بخاري،التفسیر، سوره کعیعص، باب قوله وانذرهم یوم الحسرة : 4730، صحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمها واهلها، باب النار یدخلها الجبارون : 2849۔) ’’موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں قیامت کے دن لایاجائے گا اور اسے جنت وجہنم کے درمیان لا کر کھڑا کر دیاجائے گا۔ پھر اہل جنت سے پوچھا جائے گا کیا تم اس کو جانتے ہو؟ تووہ گردنیں اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے،ہاں ،یہ موت ہے۔ پھر کہا جائے گا اسے جہنمیو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ تو و ہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو کہیں گے، ہاں ،یہ موت ہے۔‘‘ فرمایا: ’’اس سے متعلق حکم ہوگا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا اے جنتیو! اب (جنت میں ) ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہیں اور اسے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَاَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ پڑھی اور اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔