كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ نُعْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ شَابٌّ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْنُو مِنْكَ؟ [ص:23] قَالَ: «ادْنُ» ، فَدَنَا حَتَّى وَضَعَ فَخِذَهُ عَلَى فَخِذِهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: " تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُهُ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: «تُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، وَتُؤْمِنُ بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَتُؤْمِنُ بِالْمِيزَانِ» ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک نوجوان آیا اور اس نے عرض کیا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں آپ کے قریب ہوجاؤں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’قریب ہوجاؤ۔‘‘ وہ (اتنا)قریب ہواحتی کہ اس نے اپنی ران آپ کی ران پر رکھ دی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے رسول ہیں ۔ اس (نوجوان) نے پوچھا: جب میں یہ کام کروں تو میں مسلمان ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں (تو مسلمان ہے)۔‘‘ اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے تو جنت اور جہنم پر ایمان لائے۔ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لائے اور میزان (کے برحق ہونے) پر ایمان لائے۔‘‘ اس نے عرض کیا: جب میں یہ کام کروں تو میں مومن ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔
تشریح :
(1):… کتاب و سنت میں تحصیل علم کی ترغیب دلائی گئی ہے اور طلب علم کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں ۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی مسائل کی آگاہی کے لیے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں حاضر ہوتے اور در پیش مسائل سے متعلق رہنمائی حاصل کرتے تھے۔مسجد نبوی میں علمی حلقے منعقد ہوتے اور علمی مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
(2) علماء کی توقیر:
اہل علم کی مجالس میں خاموشی سے کتاب و سنت کی تعلیمات پر مبنی باتیں سننا اور ان کو ضبط کرنا سلف کا طریقہ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجلس نبوی کے آداب سکھائے تو فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٢﴾ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (الحجرات : 2،3)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ لاشعوری میں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں ۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
علماء کرام سے ادب و احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے مسائل دریافت کرنا اور ان کی بات کو دلجمعی سے سننا چاہیے۔
(3) آداب الشیخ:
ایک شاگرد اور سائل کو معلم کے قریب ہو کر بیٹھنا چاہیے تاکہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین ہو سکے کیونکہ چکنا ہوکر، حضور قلب کے ساتھ توجہ سے بات سننے کا فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾ (قٓ : 37)
’’بلاشبہ اس میں اس شخص کے لیے یقینا نصیحت ہے جس کا دل ہویا وہ کان لگائے اس حال میں کہ وہ حاضر ہو۔‘‘
کفار قرآنی ہدایت سے اسی لیے محروم ہوئے کہ وہ دل کی حاضری کے ساتھ قرآن نہیں سنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بے خبری ولاپرواہی کو بیان کیا تو فرمایا:
﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا﴾ (الاعراف : 179)
’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اوران کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں ۔‘‘
(4):… کسی بھی استاد یا بڑے انسان کی مجلس میں دو زانوں ہو کر بیٹھنا انتہائی ادب و احترام اور حسن تواضح کا مظہر ہے۔
(5) اسلام کیا ہے؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں شھادتین کا ذکر کیا، کیونکہ ارکان اسلام میں یہ گواہی سب سے مقدم ہے جس سے ان دونوں اعتقادی امورکی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ یہ دونوں گواہیاں لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر کوئی شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے مگر محمد رسول اللہ کی گواہی نہیں دیتا تو اس کی لا الہ الا اللہ کی گواہی بھی غیر معتبر متصور ہوگی، اسی طرح اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ کی گواہی دے لیکن لا الہ الا اللہ کی گواہی سے انحراف کرے تو اس کی گواہی مردود و غیر معتبر ہوگی۔ لہٰذا اسلام کا اہم ترین نکتہ توحید و رسالت کی گواہی ہے۔
لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق صرف اور صرف ایک اللہ ہی ہے جس کا انسان کو زبان کے اقرار ، قلبی اعتراف اور جسمانی اعضا سے ثابت کرنا چاہیے اور لا الہ الا اللہ کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی قولی فعلی اور مالی عبادت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے بجالائی جائے۔
محمد رسول اللہ کی گواہی سے بھی مقصود صرف زبانی اظہار نہیں بلکہ دل سے اعتقاد کے ساتھ ساتھ انسان کے عمل میں بھی اس گواہی کا رنگ نمایاں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر عقیدہ و عمل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع متروک ہے تو انہیں رسول اللہ ماننے کا معاملہ مشکوک ہے۔
(6) ایما ن کیا ہے؟
سائل کے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند امور کا ذکر فرمایا جن کی مختصر توضیح ذیل میں ہے۔
(i) تقدیر پر ایمان:… تقدیر پر ایمان خواہ وہ خیر ہو یا شر ایمان کا اہم ترین رکن ہے۔ کتاب سنت کے بے شمار دلائل تقدیر کے اثبات پر دال ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾(التوبہ : 51)
’’کہہ دیجئے ہمیں ہر گز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر لازم ہے کہ ایمان والے بھروسہ کریں ۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴾ (الحدید : 22،23)
’’کوئی مصیبت نہ زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا فرمائے اور اللہ کس تکبر کرنے والے اور بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں نے بہت سارے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے پایا:
’’کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ‘‘
’’ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے۔‘‘
اور میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنا وہ فرما رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزِ وَالْکَیْسِ اَوِ الْکَیْسِ وَالْعَجْزِ))( صحیح مسلم، القدر، باب کل شئی بقدر : 2655۔)
’’ہر چیز حتی کہ عجز اور کیس بھی اللہ کی تقدیر کے ساتھ ہے۔‘‘
معلوم ہوا عاجز و بے بس کا عجز و ضعف عقلمند کی دانائی اور عقلمندی سب تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِیرَ الْخَلَآئِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِینَ اَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُه عَلَی الْمَآئِ))( صحیح مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ علیهما السلام : 2653۔)
’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے تمام خلائق کی تقدیریں لکھ دیں اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘
(ii) جنت و جہنم پر ایمان:… ایمان کے تقاضوں میں سے جنت و جہنم پر ایمان لانا بھی ہے۔ یہ دونوں اس وقت موجود ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گی۔ جنت اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں اہل اللہ کے لیے ہے جبکہ جہنم اللہ اور اس کے رسولوں کے اعداء و باغیوں کا ٹھکانہ ہے۔ کتاب و سنت میں اہل جنت و جہنم کی صفات اور ان کے ہمیشہ رہنے کے بے شمار دلائل مذکور ہیں ۔ اہل سنت ان کے موجود ہونے اور ہمیشہ رہنے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
(iii) بعث بعد الموت پر ایمان:… دنیا کی زندگی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے بعد از موت آخرت کی زندگی ہے جس میں ایک انسان نے دنیوی زندگی میں کئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تیرہ سالہ مکی زندگی میں کفار کی طرف سے ایمان بالآخرۃ کے تعلق سے مخاصمت کا سامنا رہا، اسی لیے قبل الہجرۃ آپ کی دعوت توحید و رسالت کے اثبات کے ساتھ عقیدۂ آخرت کے اہم نکتہ پر مرتکز رہی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عقیدۂ بعث بعد الموت کا جا بجا ذکر کیا اور کفار کی طرف سے مزعومہ اشکالات کا رد فرمایا اور آخرت پر مکمل یقین و ایمان رکھنے والوں کی تعریف کی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (البقرہ : 4، 5)
’’(متقین وہ ہیں ) جو آخرت کے ساتھ پورا یقین رکھتے ہیں ، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔‘‘
(iv) میزان پر ایمان:… اللہ رب العزت روز قیامت اپنا عدل قائم کرنے کے لیے بندوں کے اعمال تولیں گے اور اس مقصد کے لیے میزان نصب ہو گا، اس میزان کے دو پلڑے ہوں گے جن میں اعمال کے وزن کی بناپر جھکاؤ کی صلاحیت موجود ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴾ (الانبیاء : 47)
’’اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر ایک عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں ۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨﴾ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ﴾ (الاعراف : 8، 9)
’’اور اس دن وزن برحق ہے، پھر جس شخص کا پلڑا بھاری ہوگا وہی کامیاب ہونے والا ہے اور جس شخص کا پلڑا ہلکا ہوگا تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔‘‘
احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ اعمال کو اپنے میزان میں تین طرح سے تولیں گے۔
(i) اعمال کا وزن:… مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الطُّہُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ))( صحیح مسلم، الطھارۃ، باب فضل الوضوء : 223۔)
’’صفائی نصف ایمان ہے اور الحمد للہ میزان کو بھر دے گا۔‘‘
(ii) اعمال کے صحیفے تولے جائیں گے:… اس کی دلیل حدیث بطاقہ ہے کہ ایک آدمی کی ایک پرچی جس پر ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ‘‘ لکھا ہوگا وہ گناہوں کے ننانوے رجسٹر جن کا طول و عرض تا حد نگاہ ہوگا ان سے بوجھل اور وزنی ثابت ہوگی۔( سنن ترمذی، الایمان، باب من یموت وهو یشهد ان لا اله الا اللّٰه : 2639، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
(iii) صاحب عمل کا وزن ہوگا:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پنڈلیوں سے متعلق فرمایا:
((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهِ لَهُمَا اَثْقَلُ فِیْ الْمِیْزَانِ مِنْ اُحُدٍ))( مسند احمد : 7/98، (3991)۔)
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عبداللہ کی دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی وزنی ہوں گی۔‘‘
(v) اسلام اور ایمان میں فرق:… فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور ایمان دو ایسے کلمے ہیں کہ جب انہیں اکٹھا ذکر کیا جائے گا تو دونوں کے معنی میں فرق ہوگا جیسا کہ حدیث جبریل میں دونوں اکٹھے مذکور ہیں ، چنانچہ انہوں نے دونوں کی علیحدہ علیحدہ تعریف ذکر فرمائی، اسلام کی تعریف میں پانچ اعمال ظاہر ہ ذکر فرمائے اور ایمان کی تعریف میں چھ اعمال باطنہ ذکر فرمائے۔ لیکن یہی دو کلمے جب الگ الگ ذکر ہوں گے تو ہر کلمہ دونوں معانی (اعمال ظاہرہ اور باطنہ) کو شامل ہوگا۔‘‘( شرح حدیث جبریل از عبد اللّٰه ناصر رحمانی، ص : 33۔)
تخریج :
مسند ابو داؤد الطیالسي : 1/24، رقم الحدیث : 21، مصنف ابن ابی شیبه : 3/331۔
(1):… کتاب و سنت میں تحصیل علم کی ترغیب دلائی گئی ہے اور طلب علم کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں ۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی مسائل کی آگاہی کے لیے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں حاضر ہوتے اور در پیش مسائل سے متعلق رہنمائی حاصل کرتے تھے۔مسجد نبوی میں علمی حلقے منعقد ہوتے اور علمی مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
(2) علماء کی توقیر:
اہل علم کی مجالس میں خاموشی سے کتاب و سنت کی تعلیمات پر مبنی باتیں سننا اور ان کو ضبط کرنا سلف کا طریقہ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجلس نبوی کے آداب سکھائے تو فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿٢﴾ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (الحجرات : 2،3)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ لاشعوری میں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں ۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
علماء کرام سے ادب و احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے مسائل دریافت کرنا اور ان کی بات کو دلجمعی سے سننا چاہیے۔
(3) آداب الشیخ:
ایک شاگرد اور سائل کو معلم کے قریب ہو کر بیٹھنا چاہیے تاکہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین ہو سکے کیونکہ چکنا ہوکر، حضور قلب کے ساتھ توجہ سے بات سننے کا فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾ (قٓ : 37)
’’بلاشبہ اس میں اس شخص کے لیے یقینا نصیحت ہے جس کا دل ہویا وہ کان لگائے اس حال میں کہ وہ حاضر ہو۔‘‘
کفار قرآنی ہدایت سے اسی لیے محروم ہوئے کہ وہ دل کی حاضری کے ساتھ قرآن نہیں سنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بے خبری ولاپرواہی کو بیان کیا تو فرمایا:
﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا﴾ (الاعراف : 179)
’’ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اوران کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں ۔‘‘
(4):… کسی بھی استاد یا بڑے انسان کی مجلس میں دو زانوں ہو کر بیٹھنا انتہائی ادب و احترام اور حسن تواضح کا مظہر ہے۔
(5) اسلام کیا ہے؟ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں شھادتین کا ذکر کیا، کیونکہ ارکان اسلام میں یہ گواہی سب سے مقدم ہے جس سے ان دونوں اعتقادی امورکی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ یہ دونوں گواہیاں لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر کوئی شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے مگر محمد رسول اللہ کی گواہی نہیں دیتا تو اس کی لا الہ الا اللہ کی گواہی بھی غیر معتبر متصور ہوگی، اسی طرح اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ کی گواہی دے لیکن لا الہ الا اللہ کی گواہی سے انحراف کرے تو اس کی گواہی مردود و غیر معتبر ہوگی۔ لہٰذا اسلام کا اہم ترین نکتہ توحید و رسالت کی گواہی ہے۔
لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ معبود برحق صرف اور صرف ایک اللہ ہی ہے جس کا انسان کو زبان کے اقرار ، قلبی اعتراف اور جسمانی اعضا سے ثابت کرنا چاہیے اور لا الہ الا اللہ کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی قولی فعلی اور مالی عبادت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے بجالائی جائے۔
محمد رسول اللہ کی گواہی سے بھی مقصود صرف زبانی اظہار نہیں بلکہ دل سے اعتقاد کے ساتھ ساتھ انسان کے عمل میں بھی اس گواہی کا رنگ نمایاں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر عقیدہ و عمل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع متروک ہے تو انہیں رسول اللہ ماننے کا معاملہ مشکوک ہے۔
(6) ایما ن کیا ہے؟
سائل کے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند امور کا ذکر فرمایا جن کی مختصر توضیح ذیل میں ہے۔
(i) تقدیر پر ایمان:… تقدیر پر ایمان خواہ وہ خیر ہو یا شر ایمان کا اہم ترین رکن ہے۔ کتاب سنت کے بے شمار دلائل تقدیر کے اثبات پر دال ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾(التوبہ : 51)
’’کہہ دیجئے ہمیں ہر گز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر لازم ہے کہ ایمان والے بھروسہ کریں ۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴾ (الحدید : 22،23)
’’کوئی مصیبت نہ زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا فرمائے اور اللہ کس تکبر کرنے والے اور بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، میں نے بہت سارے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے پایا:
’’کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ‘‘
’’ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے۔‘‘
اور میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنا وہ فرما رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((کُلُّ شَیْئٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزِ وَالْکَیْسِ اَوِ الْکَیْسِ وَالْعَجْزِ))( صحیح مسلم، القدر، باب کل شئی بقدر : 2655۔)
’’ہر چیز حتی کہ عجز اور کیس بھی اللہ کی تقدیر کے ساتھ ہے۔‘‘
معلوم ہوا عاجز و بے بس کا عجز و ضعف عقلمند کی دانائی اور عقلمندی سب تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کَتَبَ اللّٰهُ مَقَادِیرَ الْخَلَآئِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِینَ اَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُه عَلَی الْمَآئِ))( صحیح مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ علیهما السلام : 2653۔)
’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے تمام خلائق کی تقدیریں لکھ دیں اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘
(ii) جنت و جہنم پر ایمان:… ایمان کے تقاضوں میں سے جنت و جہنم پر ایمان لانا بھی ہے۔ یہ دونوں اس وقت موجود ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گی۔ جنت اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں اہل اللہ کے لیے ہے جبکہ جہنم اللہ اور اس کے رسولوں کے اعداء و باغیوں کا ٹھکانہ ہے۔ کتاب و سنت میں اہل جنت و جہنم کی صفات اور ان کے ہمیشہ رہنے کے بے شمار دلائل مذکور ہیں ۔ اہل سنت ان کے موجود ہونے اور ہمیشہ رہنے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
(iii) بعث بعد الموت پر ایمان:… دنیا کی زندگی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے بعد از موت آخرت کی زندگی ہے جس میں ایک انسان نے دنیوی زندگی میں کئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تیرہ سالہ مکی زندگی میں کفار کی طرف سے ایمان بالآخرۃ کے تعلق سے مخاصمت کا سامنا رہا، اسی لیے قبل الہجرۃ آپ کی دعوت توحید و رسالت کے اثبات کے ساتھ عقیدۂ آخرت کے اہم نکتہ پر مرتکز رہی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عقیدۂ بعث بعد الموت کا جا بجا ذکر کیا اور کفار کی طرف سے مزعومہ اشکالات کا رد فرمایا اور آخرت پر مکمل یقین و ایمان رکھنے والوں کی تعریف کی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (البقرہ : 4، 5)
’’(متقین وہ ہیں ) جو آخرت کے ساتھ پورا یقین رکھتے ہیں ، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔‘‘
(iv) میزان پر ایمان:… اللہ رب العزت روز قیامت اپنا عدل قائم کرنے کے لیے بندوں کے اعمال تولیں گے اور اس مقصد کے لیے میزان نصب ہو گا، اس میزان کے دو پلڑے ہوں گے جن میں اعمال کے وزن کی بناپر جھکاؤ کی صلاحیت موجود ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴾ (الانبیاء : 47)
’’اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازو رکھیں گے جو عین انصاف ہوں گے پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر ایک عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں ۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨﴾ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ﴾ (الاعراف : 8، 9)
’’اور اس دن وزن برحق ہے، پھر جس شخص کا پلڑا بھاری ہوگا وہی کامیاب ہونے والا ہے اور جس شخص کا پلڑا ہلکا ہوگا تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔‘‘
احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ اعمال کو اپنے میزان میں تین طرح سے تولیں گے۔
(i) اعمال کا وزن:… مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الطُّہُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ))( صحیح مسلم، الطھارۃ، باب فضل الوضوء : 223۔)
’’صفائی نصف ایمان ہے اور الحمد للہ میزان کو بھر دے گا۔‘‘
(ii) اعمال کے صحیفے تولے جائیں گے:… اس کی دلیل حدیث بطاقہ ہے کہ ایک آدمی کی ایک پرچی جس پر ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ‘‘ لکھا ہوگا وہ گناہوں کے ننانوے رجسٹر جن کا طول و عرض تا حد نگاہ ہوگا ان سے بوجھل اور وزنی ثابت ہوگی۔( سنن ترمذی، الایمان، باب من یموت وهو یشهد ان لا اله الا اللّٰه : 2639، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
(iii) صاحب عمل کا وزن ہوگا:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پنڈلیوں سے متعلق فرمایا:
((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهِ لَهُمَا اَثْقَلُ فِیْ الْمِیْزَانِ مِنْ اُحُدٍ))( مسند احمد : 7/98، (3991)۔)
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عبداللہ کی دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی وزنی ہوں گی۔‘‘
(v) اسلام اور ایمان میں فرق:… فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور ایمان دو ایسے کلمے ہیں کہ جب انہیں اکٹھا ذکر کیا جائے گا تو دونوں کے معنی میں فرق ہوگا جیسا کہ حدیث جبریل میں دونوں اکٹھے مذکور ہیں ، چنانچہ انہوں نے دونوں کی علیحدہ علیحدہ تعریف ذکر فرمائی، اسلام کی تعریف میں پانچ اعمال ظاہر ہ ذکر فرمائے اور ایمان کی تعریف میں چھ اعمال باطنہ ذکر فرمائے۔ لیکن یہی دو کلمے جب الگ الگ ذکر ہوں گے تو ہر کلمہ دونوں معانی (اعمال ظاہرہ اور باطنہ) کو شامل ہوگا۔‘‘( شرح حدیث جبریل از عبد اللّٰه ناصر رحمانی، ص : 33۔)