كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔
تشریح :
فتح مکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی شدید آرزو تھی کہ مکہ مکرمہ میں موجود اللہ کے گھر جائیں ، اس کا طواف کریں ، وہاں حج و عمرہ جیسی عبادات بجا لیں ۔ لیکن قریش کی دشمنی اور قبائل عرب کی عام مخالفت سے ایسا ممکن نہ تھا۔ صلح حدیبیہ کی بدولت مسلمانوں کے لیے عمرہ کا موقع میسر آیا پھر مشرکین مکہ کی طرف سے عہد شکنی نے فتح مکہ کی راہ کو ہموار کر دیا۔
رمضان 8ھ میں دس ہزار اسلامی فوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔ قریش مکہ میں اس فوج کے مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین میں فاتحانہ داخل ہوئے، جس سے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محروم کیے گئے تھے۔
دوران جنگ خواتین و بچوں کا قتل:
دین اسلام میں جہاد فی سبیل کی ضرورت و اہمیت اور مجاہدین فی سبیل کی فضیلت کو خوب تفصیل سے بیان کیا گیا جہاد کا مقصد اللہ کی رضا،اس کے کلمے کی بلندی، حق کی ترویج اور باطل کی بیخ کنی ہے اور جہاد کو افضل الاعمال میں سے شمار کیا گیا ہے۔ داعی اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہدانہ زندگی سے جہاد کے اصول وضوابط اور آداب مترشح ہوتے ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک ادب مجاہدین اسلام کو یہ بھی سکھایا گیا کہ دوران جنگ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوے میں ایک عورت کی لاش دیکھی جسے قتل کیا گیا تھا، تو آپ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔( صحیح بخاري،الجهاد والسیر، باب قتل الصبیان في الحرب : 3014، 3015، صحیح مسلم،الجهاد، باب تحریم قتل النساء والصبیان في الحرب : 1744۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابن ابی الحقیق کی طرف خیبر میں صحابہ کو بھیجا تو انہیں بھی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔
( سنن الکبريٰ للبیهقي : 9/78، مسند الشافي : 1734، 1735۔)
تخریج :
صحیح بخاري، الجهاد والسیر، باب قتل الصبیان في الحرب، رقم الحدیث : 3014، 3015، صحیح مسلم، الجهاد، باب تحریم قتل النساء والصبیان في الحرب، رقم الحدیث : 1744۔
فتح مکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی شدید آرزو تھی کہ مکہ مکرمہ میں موجود اللہ کے گھر جائیں ، اس کا طواف کریں ، وہاں حج و عمرہ جیسی عبادات بجا لیں ۔ لیکن قریش کی دشمنی اور قبائل عرب کی عام مخالفت سے ایسا ممکن نہ تھا۔ صلح حدیبیہ کی بدولت مسلمانوں کے لیے عمرہ کا موقع میسر آیا پھر مشرکین مکہ کی طرف سے عہد شکنی نے فتح مکہ کی راہ کو ہموار کر دیا۔
رمضان 8ھ میں دس ہزار اسلامی فوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔ قریش مکہ میں اس فوج کے مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین میں فاتحانہ داخل ہوئے، جس سے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محروم کیے گئے تھے۔
دوران جنگ خواتین و بچوں کا قتل:
دین اسلام میں جہاد فی سبیل کی ضرورت و اہمیت اور مجاہدین فی سبیل کی فضیلت کو خوب تفصیل سے بیان کیا گیا جہاد کا مقصد اللہ کی رضا،اس کے کلمے کی بلندی، حق کی ترویج اور باطل کی بیخ کنی ہے اور جہاد کو افضل الاعمال میں سے شمار کیا گیا ہے۔ داعی اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہدانہ زندگی سے جہاد کے اصول وضوابط اور آداب مترشح ہوتے ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک ادب مجاہدین اسلام کو یہ بھی سکھایا گیا کہ دوران جنگ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوے میں ایک عورت کی لاش دیکھی جسے قتل کیا گیا تھا، تو آپ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔( صحیح بخاري،الجهاد والسیر، باب قتل الصبیان في الحرب : 3014، 3015، صحیح مسلم،الجهاد، باب تحریم قتل النساء والصبیان في الحرب : 1744۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابن ابی الحقیق کی طرف خیبر میں صحابہ کو بھیجا تو انہیں بھی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔
( سنن الکبريٰ للبیهقي : 9/78، مسند الشافي : 1734، 1735۔)