كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ شُقَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَمَا ثَلَاثَةٌ يَمْشُونَ إِذْ أَخَذَتْهُمُ السَّمَاءُ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ» وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین افراد جا رہے تھے کہ آسمان کی بارش و بجلی نے ان کو گھیر لیا تو انہوں نے ایک پہاڑ کی غارمیں پناہ لی کہ ایک بڑا پتھر اس (غار کے منہ) پر آگرا۔ آگے حدیث کو تفصیل سے بیان کیا۔
تشریح :
(1) تین افراد تین کہانیاں :
مذکورہ روایت ایک طویل واقعہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: تم سے پہلے لوگوں میں تین آدمی (ایک ساتھ کام کے لیے) چلے یہاں تک وہ رات کے وقت ایک غارکے پاس پہنچے اور وہ تینوں اس میں داخل ہوگئے۔ ایک پتھر پہاڑ سے لڑھکا اور اس نے غار کا منہ بندکر دیا تو انہوں نے کہا اس جگہ سے اب کوئی چیز رہائی نہیں دے سکتی۔ مگر یہ کہ تم اپنے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، لہٰذا ان میں سے ایک شخص کہنے لگا: اے اللہ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میں ان سے پہلے نہ تو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا تھا اور نہ ہی لونڈی اور غلاموں کو، ایک دن اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی حتی کہ میں گھر آیا تو وہ سو گئے تھے۔ لہٰذا میں نے ان کے لیے شام کا دودھ دوھا، برتن ہاتھ میں لیادیکھا تو وہ سوئے ہوئے ہیں اور مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ ان سے پہلے گھر والوں اور لونڈی غلاموں کو کچھ پلاؤں ، لہٰذا میں رک گیا اور پیالہ پکڑے ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور وہ دونوں بیدار ہوئے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو اس پتھر کی وجہ سے جس حال میں ہم ہیں اس کو ہم سے دورکر دے۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا لیکن وہ اس سے نکل نہ سکتے تھے۔
دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میری چچا زاد تھی جو مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب تھی۔ میں نے اس سے بدکاری کی خواہش کی لیکن وہ راضی نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک سال قحط پڑا اور وہ ضرورتمند ہوئی تو میرے پاس آئی اور میں نے اس کو ایک سو بیس اشرفیاں اس شرط پر دینے کی حامی بھری کہ مجھے اپنی ذات سے نہیں روکے گی۔ اس نے اس شرط کو منظور کر لیا حتی کہ جب مجھے اس پر مکمل قدرت حاصل ہو گئی تو وہ کہنے لگی؛ میں تیرے لیے اس فعل کو جائز نہیں سمجھتی کہ ناحق میرے کنوارے پن کو ختم کرے۔ میں نے یہ سن کر اس کے ساتھ ملاپ کو گناہ سمجھا اور اس سے علیحدہ ہو گیا تھا حالانکہ مجھے اس سے سب سے زیاد ہ محبت تھی اور میں نے اسے دی ہوئی اشرفیاں بھی واپس نہ لیں ، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام فقط تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو ہم سے اس مصیبت کو دور کر دے،چنانچہ وہ پتھر کچھ مزید ہٹ گیا لیکن ابھی بھی وہ اس سے نہیں نکل سکتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر لگایا تھا اور ان کو ان کی مزدوری بھی دی لیکن ایک شخص اپنی مزدوی لیے بغیر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری سے تجارت کی،یہاں تک کہ اس سے بہت زیادہ مال حاصل ہوا، پھر وہ ایک لمبے عرصے کے بعد میرے پاس آیا اور آکر مجھ سے مزدوری کا مطالبہ کیا تو میں نے اس سے کہا: تو یہ جس قدر اونٹ،گائے، بکری اور غلام دیکھ رہا ہے۔ یہ سب تیری مزدوری کے ہیں ۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! کیاتو میرے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ میں نے کہا میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ تو اس نے وہ تمام چیزیں لے لیں اور انہیں ہانک کر لے گیا، ایک چیز بھی نہ چھوڑی، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم ہیں ، اس کو ہم سے دور کر دے، چنانچہ وہ پتھر مکمل طور پر غار سے ہٹ گیا اور وہ اس سے باہر نکل آئے۔
( صحیح بخاري، البیوع، باب اذا اشتري شیئاً لغیره : 2215، 2272، صحیح مسلم، الرقاق، باب قصة اصحاب الغار الثلاثة : 2743۔)
درج بالا حدیث کثیر فوائد پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بعض درج بالاختصار ذیل میں بیان کیے گئے ہیں :
i: سابقہ امتوں کے واقعات وعظ و نصیحت کے لیے بیان کیے جا سکتے ہیں ۔
ii: نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرناجائز ہے۔
iii: مصیبت و مشکل میں دعا کرنی چاہیے۔
iv: ہر قسم کی مشکل و پریشانی اللہ رب العزت ہی دورکرتے ہیں ۔
v: والدین کی خدمت عظیم عمل ہے۔ جس کے دنیا و آخرت میں کثیر فوائد ہیں ۔
vi: اللہ کے خوف و ڈر سے گناہ ترک کر دینے والے کو اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
vii: لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فوائد حاصل نہیں کرنے چاہییں ۔
viii: مزدور سے مزدوری کروانا جائز ہے۔
ix: مزدور کی مزدوری بروقت اداکرنا لازم ہے۔
x: کسی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس کے مال سے تجارت و خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔
xi: مزدور کی مزدوری ہرحال میں کام کرنے والے کے ذمہ رہے گی اگرچہ وہ کئی برس بعد اس کا تقاضا کرنے آئے۔
xii: نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
xiii: عمل اخلاص و للہیت سے کیا جائے تو اس کا صلہ دنیا میں بھی عطا کیا جاتا ہے۔
xiv: اللہ رب العزت سے بڑھ کر کوئی قدر دان نہیں ۔
xv: نیک اعمال سے مشکلات کافور ہوتی ہیں ۔
تخریج :
صحیح بخاري،ا لبیوع، باب اذا اشتريٰ شیئًا لغیرهٖ بغیر اذنه فرضي، رقم الحدیث : 2215، صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب قصة اصحاب الغار الثلاثة والتوسل بصالح الأعمال، رقم الحدیث : 2743۔
(1) تین افراد تین کہانیاں :
مذکورہ روایت ایک طویل واقعہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: تم سے پہلے لوگوں میں تین آدمی (ایک ساتھ کام کے لیے) چلے یہاں تک وہ رات کے وقت ایک غارکے پاس پہنچے اور وہ تینوں اس میں داخل ہوگئے۔ ایک پتھر پہاڑ سے لڑھکا اور اس نے غار کا منہ بندکر دیا تو انہوں نے کہا اس جگہ سے اب کوئی چیز رہائی نہیں دے سکتی۔ مگر یہ کہ تم اپنے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، لہٰذا ان میں سے ایک شخص کہنے لگا: اے اللہ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میں ان سے پہلے نہ تو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا تھا اور نہ ہی لونڈی اور غلاموں کو، ایک دن اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی حتی کہ میں گھر آیا تو وہ سو گئے تھے۔ لہٰذا میں نے ان کے لیے شام کا دودھ دوھا، برتن ہاتھ میں لیادیکھا تو وہ سوئے ہوئے ہیں اور مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ ان سے پہلے گھر والوں اور لونڈی غلاموں کو کچھ پلاؤں ، لہٰذا میں رک گیا اور پیالہ پکڑے ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور وہ دونوں بیدار ہوئے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو اس پتھر کی وجہ سے جس حال میں ہم ہیں اس کو ہم سے دورکر دے۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا لیکن وہ اس سے نکل نہ سکتے تھے۔
دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میری چچا زاد تھی جو مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب تھی۔ میں نے اس سے بدکاری کی خواہش کی لیکن وہ راضی نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک سال قحط پڑا اور وہ ضرورتمند ہوئی تو میرے پاس آئی اور میں نے اس کو ایک سو بیس اشرفیاں اس شرط پر دینے کی حامی بھری کہ مجھے اپنی ذات سے نہیں روکے گی۔ اس نے اس شرط کو منظور کر لیا حتی کہ جب مجھے اس پر مکمل قدرت حاصل ہو گئی تو وہ کہنے لگی؛ میں تیرے لیے اس فعل کو جائز نہیں سمجھتی کہ ناحق میرے کنوارے پن کو ختم کرے۔ میں نے یہ سن کر اس کے ساتھ ملاپ کو گناہ سمجھا اور اس سے علیحدہ ہو گیا تھا حالانکہ مجھے اس سے سب سے زیاد ہ محبت تھی اور میں نے اسے دی ہوئی اشرفیاں بھی واپس نہ لیں ، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام فقط تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو ہم سے اس مصیبت کو دور کر دے،چنانچہ وہ پتھر کچھ مزید ہٹ گیا لیکن ابھی بھی وہ اس سے نہیں نکل سکتے تھے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر لگایا تھا اور ان کو ان کی مزدوری بھی دی لیکن ایک شخص اپنی مزدوی لیے بغیر چلا گیا، میں نے اس کی مزدوری سے تجارت کی،یہاں تک کہ اس سے بہت زیادہ مال حاصل ہوا، پھر وہ ایک لمبے عرصے کے بعد میرے پاس آیا اور آکر مجھ سے مزدوری کا مطالبہ کیا تو میں نے اس سے کہا: تو یہ جس قدر اونٹ،گائے، بکری اور غلام دیکھ رہا ہے۔ یہ سب تیری مزدوری کے ہیں ۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! کیاتو میرے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ میں نے کہا میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ تو اس نے وہ تمام چیزیں لے لیں اور انہیں ہانک کر لے گیا، ایک چیز بھی نہ چھوڑی، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم ہیں ، اس کو ہم سے دور کر دے، چنانچہ وہ پتھر مکمل طور پر غار سے ہٹ گیا اور وہ اس سے باہر نکل آئے۔
( صحیح بخاري، البیوع، باب اذا اشتري شیئاً لغیره : 2215، 2272، صحیح مسلم، الرقاق، باب قصة اصحاب الغار الثلاثة : 2743۔)
درج بالا حدیث کثیر فوائد پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بعض درج بالاختصار ذیل میں بیان کیے گئے ہیں :
i: سابقہ امتوں کے واقعات وعظ و نصیحت کے لیے بیان کیے جا سکتے ہیں ۔
ii: نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرناجائز ہے۔
iii: مصیبت و مشکل میں دعا کرنی چاہیے۔
iv: ہر قسم کی مشکل و پریشانی اللہ رب العزت ہی دورکرتے ہیں ۔
v: والدین کی خدمت عظیم عمل ہے۔ جس کے دنیا و آخرت میں کثیر فوائد ہیں ۔
vi: اللہ کے خوف و ڈر سے گناہ ترک کر دینے والے کو اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
vii: لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فوائد حاصل نہیں کرنے چاہییں ۔
viii: مزدور سے مزدوری کروانا جائز ہے۔
ix: مزدور کی مزدوری بروقت اداکرنا لازم ہے۔
x: کسی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس کے مال سے تجارت و خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔
xi: مزدور کی مزدوری ہرحال میں کام کرنے والے کے ذمہ رہے گی اگرچہ وہ کئی برس بعد اس کا تقاضا کرنے آئے۔
xii: نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
xiii: عمل اخلاص و للہیت سے کیا جائے تو اس کا صلہ دنیا میں بھی عطا کیا جاتا ہے۔
xiv: اللہ رب العزت سے بڑھ کر کوئی قدر دان نہیں ۔
xv: نیک اعمال سے مشکلات کافور ہوتی ہیں ۔