مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 81

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْحَرُ يَوْمَ الْأَضْحَى بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَ إِذَا لَمْ يَنْحَرْ يَذْبَحُ

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 81

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن مدینہ میں (اونٹ) نحر کرتے اور جب (اونٹ)نحر نہ کرتے تو (بھیڑ، بکری) ذبح کرتے تھے۔
تشریح : (1) نحر اور ذبح میں فرق: نحر کے معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے قربان کرنا ہے جبکہ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیرنے کو ذبح کرنا کہتے ہیں ۔ (2) قربانی کی اہمیت و مشروعیت: قربانی ایک مشروع عمل ہے۔ سنت ابراہیم علیہ السلام اور سلام کا شعار ہے جس سے اللہ رب العزت کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ تو اتر کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے۔ عہد نبوت سے آج تک ہر مسلم معاشرے میں اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور یہ قیامت تک اسی طرح رہے گا اور یہ ہر سال ہر گھر والوں خصوصاً اصحاب استطاعت پر قربانی ضروری ہے۔ اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا اور فرمایا: ﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر : 2) ’’اور اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ عطاء بن یسار رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: ((کَیْفَ کَانَتْ الضَّحَایَا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔)) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تم قربانیاں کس طرح کرتے تھے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ((کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ))( سنن ترمذي، الاضاحي، باب ما جاء ان الشاة الواحدة … الخ : 1505، سنن ابن ماجة ، الاضاحي، باب من ضحي بشاة عن اهله : 3147، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا۔‘‘ مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں تھے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ((یَا أَیُّهَا النَّاسُ عَلَی کُلِّ أَهْلِ بَیْتٍ فِي کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَّةٌ))( سنن ترمذي، الاضاحي، بابٌ : 1518، سنن ابي داؤد، الضحایا، باب ما جاء في ایجاب الأضاحي : 2788، سنن نسائي : 4224، سنن ابن ماجة : 3125، محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔) ’’اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے۔‘‘ (3) ایک جانور میں شراکت: عہدنبوی میں اونٹ،گائے، بھیڑ، بکری کی جنس سے قربانی دی جاتی تھی۔ اگر کسی میں قربانی کے لیے علیحدہ مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو تو ایک گائے کو سات آدمی اور اونٹ کو دس آدمی مل کر خرید لیں تو وہ ان کی طرف سے اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،و ہ فرماتے ہیں ، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عید الاضحی آگئی، تو ہم ایک گائے میں سات آدمی اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے تھے۔( سنن ترمذي، الاضاحي، باب ما جاء في الاشتراك في الاضحیة : 1501، سنن نسائي، الضحایا، باب ما تجزئ عنه البدنة في الضحایا : 4392، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
تخریج : صحیح بخاري، العیدین، باب النحر والذبح یوم النحر بالمصلي، رقم الحدیث : 982،5552، سنن نسائي، الضحایا، باب ذبح الامام اضحیته بالمصلي، رقم الحدیث : 4367۔ (1) نحر اور ذبح میں فرق: نحر کے معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے قربان کرنا ہے جبکہ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیرنے کو ذبح کرنا کہتے ہیں ۔ (2) قربانی کی اہمیت و مشروعیت: قربانی ایک مشروع عمل ہے۔ سنت ابراہیم علیہ السلام اور سلام کا شعار ہے جس سے اللہ رب العزت کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ ملت اسلامیہ تو اتر کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے۔ عہد نبوت سے آج تک ہر مسلم معاشرے میں اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور یہ قیامت تک اسی طرح رہے گا اور یہ ہر سال ہر گھر والوں خصوصاً اصحاب استطاعت پر قربانی ضروری ہے۔ اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا اور فرمایا: ﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر : 2) ’’اور اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ عطاء بن یسار رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: ((کَیْفَ کَانَتْ الضَّحَایَا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔)) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تم قربانیاں کس طرح کرتے تھے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ((کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ))( سنن ترمذي، الاضاحي، باب ما جاء ان الشاة الواحدة … الخ : 1505، سنن ابن ماجة ، الاضاحي، باب من ضحي بشاة عن اهله : 3147، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا۔‘‘ مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں تھے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ((یَا أَیُّهَا النَّاسُ عَلَی کُلِّ أَهْلِ بَیْتٍ فِي کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَّةٌ))( سنن ترمذي، الاضاحي، بابٌ : 1518، سنن ابي داؤد، الضحایا، باب ما جاء في ایجاب الأضاحي : 2788، سنن نسائي : 4224، سنن ابن ماجة : 3125، محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔) ’’اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے۔‘‘ (3) ایک جانور میں شراکت: عہدنبوی میں اونٹ،گائے، بھیڑ، بکری کی جنس سے قربانی دی جاتی تھی۔ اگر کسی میں قربانی کے لیے علیحدہ مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو تو ایک گائے کو سات آدمی اور اونٹ کو دس آدمی مل کر خرید لیں تو وہ ان کی طرف سے اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،و ہ فرماتے ہیں ، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عید الاضحی آگئی، تو ہم ایک گائے میں سات آدمی اور ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے تھے۔( سنن ترمذي، الاضاحي، باب ما جاء في الاشتراك في الاضحیة : 1501، سنن نسائي، الضحایا، باب ما تجزئ عنه البدنة في الضحایا : 4392، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)