كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصَّ الشَّارِبِ وَحَلْقَ الْعَانَةِ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مونچھوں کا کٹوانا اور زیر ناف بال مونڈنا (امور) فطرت سے ہے۔‘‘
تشریح :
امور فطرت:
اس سے مراد وہ خصائل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیداکیا اور تمام شریعتوں کا اس اعتبار سے ان پر اتفاق رہا کہ آدمی کی تکمیل ان سے وابستہ رہنے میں ہے۔ان کو اپنا کر آدمی خوبصورت اچھی ہیئت و شکل والا بن جاتا ہے۔
علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کرمانی نے کہا: یعنی یہ باتیں قدیم سنت ہیں جن پر اگلے پیغمبر چلتے رہے اور تمام شریعتیں ان پر متفق ہیں ۔ گویا وہ فطری اور خلقی باتیں ہو گئی ہیں ۔‘‘( لغات الحدیث : 3/440۔)
احادیث میں دس امو ر فطرت کا بیان ہے جن میں سے مسواک کرنا، مونچھوں کو کتروانا، داڑھی کو بڑھانا، زیر ناف بال مونڈنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخنوں کو کاٹنا، ناک میں پانی چڑھانا، ہاتھوں کی انگلیوں کودھونا، کلی کرنا اور استنجاء کرنا ہیں ۔
(2) مونچھوں کو کاٹنا:
شریعت اسلامیہ میں مونچھوں کو کاٹنے کا حکم دیا گیا مونچھیں کاٹنے اورخوب پست کرنے سے خوبصورتی اور نظافت پیدا ہوتی ہے۔کفار و مشرکین کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔ جس کا ہمیں تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ فی زمانہ لوگ داڑھیوں کو مونڈتے اور مونچھیں رکھتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سارے داڑھی اور مونچھ دونوں کو مونڈ دیتے ہیں ۔ یہ دونوں کام درست نہیں ، داڑھی کو رکھنا مرد کا حسن و جمال ہے اور اس سے مردانگی ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ کلین شیو آدمی نسوانی علامات سے آراستہ شریعت کی تعلیمات سے بہت دور ہوتا ہے؏
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
(اقبال)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ وَفِّرُوا اللِّحَي وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ))( صحیح بخاري، اللباس، باب تقلیم الأظفار : 5892، صحیح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة : 259۔)
’’مشرکوں کی مخالفت کرو،داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کتراؤ۔‘‘
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰي خَالِفُوا الْمَجُوسَ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة : 260۔)
’’مونچھوں کو کتراؤ اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
(3) زیر ناف بال مونڈنا:
زیر ناف بالوں کا اگ آنا بلوغت کی علامات میں سے ہے۔ لڑکوں یا لڑکیوں کے یہ بال بلوغت کے بعد اگتے ہیں ۔ ان بالوں کو مونڈنا مسنون ہے۔ا س کا مقصد نجاست سے صفائی اور پاکیزگی ہے۔ کیونکہ ان بالوں کے بڑھ جانے سے گندگی اور میل کچیل کا جمع ہوجانا ممکن ہے۔ لہٰذا ان کی تھوڑے عرصہ بعد صفائی کرتے رہنے سے انسان صاف ستھرا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال مونڈنے کے سلسلہ میں وقت کا تعین کیا، چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
((وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِیمِ الْأَظْفَارِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ أَنْ لَّا نَتْرُكَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ لَیْلَة))( صحیح مسلم، الطهارة، خصال الفطرة : 258۔)
’’ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشتے، بغل کے بال اکھیڑنے او ر زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کیاگیا کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔‘‘
تخریج :
صحیح بخاري، اللباس، باب تقلیم الأطفار، رقم الحدیث : 5890۔
امور فطرت:
اس سے مراد وہ خصائل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیداکیا اور تمام شریعتوں کا اس اعتبار سے ان پر اتفاق رہا کہ آدمی کی تکمیل ان سے وابستہ رہنے میں ہے۔ان کو اپنا کر آدمی خوبصورت اچھی ہیئت و شکل والا بن جاتا ہے۔
علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کرمانی نے کہا: یعنی یہ باتیں قدیم سنت ہیں جن پر اگلے پیغمبر چلتے رہے اور تمام شریعتیں ان پر متفق ہیں ۔ گویا وہ فطری اور خلقی باتیں ہو گئی ہیں ۔‘‘( لغات الحدیث : 3/440۔)
احادیث میں دس امو ر فطرت کا بیان ہے جن میں سے مسواک کرنا، مونچھوں کو کتروانا، داڑھی کو بڑھانا، زیر ناف بال مونڈنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخنوں کو کاٹنا، ناک میں پانی چڑھانا، ہاتھوں کی انگلیوں کودھونا، کلی کرنا اور استنجاء کرنا ہیں ۔
(2) مونچھوں کو کاٹنا:
شریعت اسلامیہ میں مونچھوں کو کاٹنے کا حکم دیا گیا مونچھیں کاٹنے اورخوب پست کرنے سے خوبصورتی اور نظافت پیدا ہوتی ہے۔کفار و مشرکین کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔ جس کا ہمیں تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ فی زمانہ لوگ داڑھیوں کو مونڈتے اور مونچھیں رکھتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سارے داڑھی اور مونچھ دونوں کو مونڈ دیتے ہیں ۔ یہ دونوں کام درست نہیں ، داڑھی کو رکھنا مرد کا حسن و جمال ہے اور اس سے مردانگی ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ کلین شیو آدمی نسوانی علامات سے آراستہ شریعت کی تعلیمات سے بہت دور ہوتا ہے؏
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
(اقبال)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ وَفِّرُوا اللِّحَي وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ))( صحیح بخاري، اللباس، باب تقلیم الأظفار : 5892، صحیح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة : 259۔)
’’مشرکوں کی مخالفت کرو،داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کتراؤ۔‘‘
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰي خَالِفُوا الْمَجُوسَ))( صحیح مسلم، الطهارة، باب خصال الفطرة : 260۔)
’’مونچھوں کو کتراؤ اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
(3) زیر ناف بال مونڈنا:
زیر ناف بالوں کا اگ آنا بلوغت کی علامات میں سے ہے۔ لڑکوں یا لڑکیوں کے یہ بال بلوغت کے بعد اگتے ہیں ۔ ان بالوں کو مونڈنا مسنون ہے۔ا س کا مقصد نجاست سے صفائی اور پاکیزگی ہے۔ کیونکہ ان بالوں کے بڑھ جانے سے گندگی اور میل کچیل کا جمع ہوجانا ممکن ہے۔ لہٰذا ان کی تھوڑے عرصہ بعد صفائی کرتے رہنے سے انسان صاف ستھرا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال مونڈنے کے سلسلہ میں وقت کا تعین کیا، چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
((وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِیمِ الْأَظْفَارِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ أَنْ لَّا نَتْرُكَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ لَیْلَة))( صحیح مسلم، الطهارة، خصال الفطرة : 258۔)
’’ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشتے، بغل کے بال اکھیڑنے او ر زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کیاگیا کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔‘‘