مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 79

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْفٍ، وَكَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلَّا أَنْ يَكُونَا اشْتَرَطَا الْخِيَارَ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 79

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو لین دین کرنے والوں کو (بیع فسخ کا)اختیار ہے۔ جب تک وہ علیحدہ علیحدہ نہ ہوں الا یہ کہ وہ دونوں اختیار کی شرط لگا لیں ۔
تشریح : (1) بیع میں اختیار: دین اسلام میں لین دین کے معاشی معاملات کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اسلام نے ایسے اصول و ضوابط دئیے جن سے خریدار اور دکاندار دونوں کو تحفظ ملا، باہمی تجارت خسارہ سے نکلی اور لوگ تھوڑے عرصہ میں خوشحال ہو گئے۔ اگر آج بھی مسلمان اسلامی اصول تجارت اپنا لیں تو خود مختار ہو جائیں ۔ اسلامی معیشت کے سنہری اصولوں میں سے ایک بیع میں اختیار کا ہے کہ خریدار اور مالک کو کسی بھی چیز کا ریٹ یابھاؤ طے کرتے وقت ایک دوسرے سے جدا ہونے سے قبل سودا پکا کرنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے اور اگر بائع و مشتری اس اختیار کی مہلت بڑھانا چاہیں تو مشروط اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔ مثلاً خریدار دکاندار سے خریدتے وقت یہ عرض کرے کہ اگر چیز پسند آگئی تو رکھ لیں گے ورنہ دو تین دن میں واپس کر کے اپنے پیسے لے جائیں گے یا اسی طرح دکاندار کہہ دے کہ دو تین دن چیز دیکھ لیں اگر پسند آئے تو رکھ لیں گے ورنہ واپس کر دیں تو یہ بیع خیار شرعاً جائز ہے۔ بیع خیار میں باہمی رضامندی کے ساتھ کم یا زیادہ مدت طے کی جا سکتی ہے۔ جدا ہونے سے مراد بائع و مشتری میں سے کسی کا بھی سودے والی جگہ سے جسمانی طور پر علیحدہ ہونا ہے۔ جیساکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے اس حدیث کی وضاحت ہوتی ہے۔ چنانچہ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی سے بیع پختہ کرنا چاہیے تو سودے کی جگہ سے اٹھ کر تھوڑا سا چلتے پھر واپس آجاتے (تاکہ سودا پکا ہو جائے)۔( صحیح مسلم، البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبایعین : 1531)
تخریج : صحیح بخاري، البیوع، باب کم یجوز الخیار، رقم الحدیث : 2107، صحیح مسلم، البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبایعین، رقم الحدیث : 1531۔ (1) بیع میں اختیار: دین اسلام میں لین دین کے معاشی معاملات کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اسلام نے ایسے اصول و ضوابط دئیے جن سے خریدار اور دکاندار دونوں کو تحفظ ملا، باہمی تجارت خسارہ سے نکلی اور لوگ تھوڑے عرصہ میں خوشحال ہو گئے۔ اگر آج بھی مسلمان اسلامی اصول تجارت اپنا لیں تو خود مختار ہو جائیں ۔ اسلامی معیشت کے سنہری اصولوں میں سے ایک بیع میں اختیار کا ہے کہ خریدار اور مالک کو کسی بھی چیز کا ریٹ یابھاؤ طے کرتے وقت ایک دوسرے سے جدا ہونے سے قبل سودا پکا کرنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے اور اگر بائع و مشتری اس اختیار کی مہلت بڑھانا چاہیں تو مشروط اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔ مثلاً خریدار دکاندار سے خریدتے وقت یہ عرض کرے کہ اگر چیز پسند آگئی تو رکھ لیں گے ورنہ دو تین دن میں واپس کر کے اپنے پیسے لے جائیں گے یا اسی طرح دکاندار کہہ دے کہ دو تین دن چیز دیکھ لیں اگر پسند آئے تو رکھ لیں گے ورنہ واپس کر دیں تو یہ بیع خیار شرعاً جائز ہے۔ بیع خیار میں باہمی رضامندی کے ساتھ کم یا زیادہ مدت طے کی جا سکتی ہے۔ جدا ہونے سے مراد بائع و مشتری میں سے کسی کا بھی سودے والی جگہ سے جسمانی طور پر علیحدہ ہونا ہے۔ جیساکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے اس حدیث کی وضاحت ہوتی ہے۔ چنانچہ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی سے بیع پختہ کرنا چاہیے تو سودے کی جگہ سے اٹھ کر تھوڑا سا چلتے پھر واپس آجاتے (تاکہ سودا پکا ہو جائے)۔( صحیح مسلم، البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبایعین : 1531)