مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 74

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ زَوْجٌ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 74

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے الا کہ اس کا خاوند ہو۔‘‘
تشریح : (1) دکھ تکلیف من جانب اللہ ہے: اس پر صبر باعث اجر وثواب ہے۔ پریشانی کے ساتھ غیر شرعی کام مؤمن کے شایان شان نہیں ، دیکھئے فوائد حدیث نمبر 20۔ (2) اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا: اللہ رب العزت پر ایمان اس کی ذات، اس کے اسماء اور صفات پر ایقان دین کی اساس ہے۔ تمام اعمال و عبادات کی بنیاد اور ان کی قبولیت اسی ایمان باللہ سے مشروط ہے۔ اللہ پر ایمان کو افضل العمل شمار کیا گیا۔ ایمان باللہ سب سے قیمتی خزانہ ہے۔ جو اس سے محروم ہے اس سے بڑا فقیر کوئی نہیں ۔ ایمان باللہ میں استحکام پیدا کرنے کے لیے اللہ کے اوامر کو بجا لانا اور منہیات سے رک جانالازم ہے۔ ارکان ایمان میں سے آخرت کے دن پر ایمان لانا بھی ہے۔ ایمان بالآخرت سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی آخرت سے متعلق دی گئی اخبار، حشر، حساب، صراط، میزان ،جنت و جہنم وغیرہ پر ایمان رکھنا ہے۔ ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر دونوں اہم ترین ارکان ایمان ہیں دیگر ارکان کا مدار و انحصار انہیں پر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد آیات میں ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کا اکٹھا تذکرہ کیا،ا رشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ (الطلاق : 2) ’’یہ وہ (حکم) ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ (النساء : 59) ’’اگر تم کسی چیز میں اختلا ف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ کامل قرار دیا تو فرمایا: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾(الاحزاب : 21) ’’یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔ اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔‘‘ (3) سوگ اور بیوہ کی عدت: سوگ ترک زینت کا نام ہے جس کا تعلق عورتوں کے ساتھ ہے۔ شریعت نے عورتوں کے لیے عام رشتہ داروں کی وفات پر تین دن جبکہ خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کا تعین کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ (البقرہ : 234) ’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ۔‘‘ اگر بیوہ مطلقہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ (الطلاق : 4) ’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کے قتل ہو جانے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کی اجازت دے دی تھی۔( صحیح بخاري، التفسیر، باب واولات الاحمال اجلهن…الخ، رقم : 4909۔)
تخریج : مسند البزار : 12/181، رقم الحدیث : 5827، صحیح بخاري،ا لجنائز، باب احداد المرأة علی غیر زوجها، رقم الحدیث : 1280، 1281، 1282، صحیح مسلم، الطلاق، باب وجوب الاحداد في عدۃ الوفاة … الخ، رقم الحدیث : 1486، عن زینب بنت ام سلمة۔ (1) دکھ تکلیف من جانب اللہ ہے: اس پر صبر باعث اجر وثواب ہے۔ پریشانی کے ساتھ غیر شرعی کام مؤمن کے شایان شان نہیں ، دیکھئے فوائد حدیث نمبر 20۔ (2) اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا: اللہ رب العزت پر ایمان اس کی ذات، اس کے اسماء اور صفات پر ایقان دین کی اساس ہے۔ تمام اعمال و عبادات کی بنیاد اور ان کی قبولیت اسی ایمان باللہ سے مشروط ہے۔ اللہ پر ایمان کو افضل العمل شمار کیا گیا۔ ایمان باللہ سب سے قیمتی خزانہ ہے۔ جو اس سے محروم ہے اس سے بڑا فقیر کوئی نہیں ۔ ایمان باللہ میں استحکام پیدا کرنے کے لیے اللہ کے اوامر کو بجا لانا اور منہیات سے رک جانالازم ہے۔ ارکان ایمان میں سے آخرت کے دن پر ایمان لانا بھی ہے۔ ایمان بالآخرت سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی آخرت سے متعلق دی گئی اخبار، حشر، حساب، صراط، میزان ،جنت و جہنم وغیرہ پر ایمان رکھنا ہے۔ ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر دونوں اہم ترین ارکان ایمان ہیں دیگر ارکان کا مدار و انحصار انہیں پر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد آیات میں ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کا اکٹھا تذکرہ کیا،ا رشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ (الطلاق : 2) ’’یہ وہ (حکم) ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ (النساء : 59) ’’اگر تم کسی چیز میں اختلا ف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ کامل قرار دیا تو فرمایا: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾(الاحزاب : 21) ’’یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔ اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔‘‘ (3) سوگ اور بیوہ کی عدت: سوگ ترک زینت کا نام ہے جس کا تعلق عورتوں کے ساتھ ہے۔ شریعت نے عورتوں کے لیے عام رشتہ داروں کی وفات پر تین دن جبکہ خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کا تعین کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ (البقرہ : 234) ’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ۔‘‘ اگر بیوہ مطلقہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ (الطلاق : 4) ’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کے قتل ہو جانے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کی اجازت دے دی تھی۔( صحیح بخاري، التفسیر، باب واولات الاحمال اجلهن…الخ، رقم : 4909۔)