مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 72

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَنْبَأَنَا سَالِمُ بْنُ غِيَاثٍ، أَوْ أَبُو عَبَّادٍ شَكَّ عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابُ السَّفَرِ فَقَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ: مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: " شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُصَلِّي الْخَمْسَ، وَتَصُومُ شَهْرَ رَمَضَانَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: «تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْبَعْثِ، وَالْحِسَابِ، وَالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْقَدَرِ» ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُؤْمِنٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ: صَدَقْتَ، فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: «تَعْمَلُ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» ، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَنَا مُحْسِنٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» ، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ: «إِذَا تَطَاوَلَ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ» ، قَالَ: الْعُرَيْبُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَ: فَخَرَجَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيَّ الرَّجُلَ» ، قَالَ: فَخَرَجْنَا فَلَمْ نَرَ أَحَدًا، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ أَمْرَ دِينِكُمْ، مَا جَاءَ فِي مِثْلِ صُورَتِهِ الْيَوْمَ قَطُّ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 72

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک مسافر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا پھر اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور تو پانچ نمازیں پڑھے اور تو رمضان کے مہینے کے روزے رکھے اور تو زکاۃ ادا کرے اور تو بیت اللہ کا حج کرے۔‘‘ا س نے پوچھا: جب میں یہ سب کروں تومیں مسلمان ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تو اللہ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اوراس کے رسولوں پر ایمان لائے اور تو یوم آخرت،دوبارہ اٹھائے جانے،حساب،جنت،جہنم اور تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ اس نے دریافت کیا جب میں یہ کروں تو میں مومن ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: احسان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تو اللہ (کی رضا) کے لیے عمل کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے (ضرور) دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس نے پوچھا: جب میں اس طرح کروں تو میں محسن (نیکوکار) ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا۔ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ اس نے دریافت کیا، اس کی نشانیاں کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’جب ننگے پاؤں ،ننگے بدن والے ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں ۔‘‘ اس نے پوچھا، بے گھر لوگ؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ۔ پھر وہ مسافر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس آدمی کو واپس بلاؤ۔‘‘ ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو ہمیں کوئی شخص بھی نظر نہ آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جبریل تھا جو تمہیں امور دین سکھانے آیا تھا۔ اس شکل و صورت میں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘
تشریح : (1):… اسلام ، ایمان سے متعلق امور کی توضیح کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 9۔ (2) احسان: اللہ رب العزت نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق فرمایا، عبادت کو احسن انداز سے انجام دینا، اخلاص و للہیت سے کرنا شریعت کا تقاضا ہے۔ جب انسان اللہ کی عبادت کرتے ہوئے یہ تصور پیدا کرے کہ میں اپنے خالق و مالک کو دیکھ رہاہوں ، تو یہ تصور و استحضار اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت، خوف، محبت اور تعظیم کا موجب ہوگا۔ جس کی وجہ سے بندہ علی وجہ الکمال عبادت ادا کرے گا۔ اگر یہ تصور و کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو نسبتاً آسان کیفیت پر توجہ مرکوز کرے کہ اس کا خالق و معبود اس کے ظاہر و باطن، خفیہ واعلانیہ سے مطلع اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے سے بھی انسان کی عبادت میں حسن پیدا ہوگا اور وہ اللہ رب العزت سے قریب تر ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن عبات کی توفیق مانگنے کی دعا بھی سکھائی۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ، اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ اے معاذ میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھنا: ’’اَللّٰهُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ‘‘ ’’اے اللہ! مجھے اپنا ذکر و شکر ادا کرنے اور اپنی اچھی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘( سنن ابي داؤد، الوتر، باب في الاستغفار : 1522، سنن نسائي، السهو، باب : 1304، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) (4) قیامت کب آئے گی؟ جبریل امین نے قیامت کے قائم ہونے سے متعلق پوچھا کہ کب ہوگی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مسؤل سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ قیامت کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے۔ کوئی مخلوق وقوع قیامت کے وقت سے آگاہ نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الاعراف : 187) ’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ، اس کا قیام کب ہوگا؟ آپ کہہ دیجئے اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری واقع ہوتی ہے۔ تم پر اچانک ہی آئے گی، آپ سے پوچھتے ہیں ، جیسے آپ اس کے بارے میں خوب تحقیق کرنے والے ہیں ، کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘ ایک جگہ پر فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمان : 34) ’’یقینا قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔‘‘ آئے روز بہت سارے لوگ اپنے خود ساختہ حساب و کتاب کی روشنی میں دنیا کے فنا اور وقوع قیامت سے متعلق دعوت کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے ایسے دعوے بے وقعت ہیں ایسے دعویداروں کی دل اور زبان سے تردید و تکذیب لازم ہے۔ کیونکہ جب تمام انبیاء کے سردار اور تمام فرشتوں سے ا فضل و برتر ہستیوں کو وقوع قیامت کاعلم نہیں تو کسی دوسرے شخص کو کیسے ہو سکتا ہے۔ (4) علامات قیامت: علامات قیامت سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کا ظاہر قیامت کے قریب ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان علامات کی علماء نے مختلف انداز سے دو قسموں میں تقسیم کی، بعض نے علامات عامہ اور علامات خاصہ۔ بعض نے علامات قریبہ اور علامات بعیدہ جبکہ بعض علماء نے علامات صغریٰ و کبریٰ کے ساتھ ان کی تقسیم فرمائی ہے۔ حدیث میں ایک علامت کا ذکر ہوا ہے کہ ننگے بدن، ننگے پاؤں والے لوگ ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔‘‘ اس سے مراد فقراء، معاشی طور پر تنگدست، مویشی چرا کر گزر بسر کرنے والے افراد کے اچانک حالات کا تبدیل ہو جانا ہے کہ وہ بڑی بڑی بلڈنگوں ، پلازوں کے مالک بن جائیں گے اور ایک دوسرے سے اونچی عمارتیں بنانے میں مسابقت اور فخر کریں گے۔ اہل علم کے نزدیک یہ علامت فی زمانہ واقع ہو چکی ہے کہ عمارتوں کے ذریعے یہ سلسلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ (5) جبریل علیہ السلام سائل اورمتعلّم: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں انسانی شکل کے اندر لوگوں کے درمیان بطور سائل اور متعلّم آئے۔ جس سے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کے سامنے بطور معلم و مفتی دینی امور پر بات کرنے کا اختیار فقط محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔لہٰذا پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دینی امور میں جب جبریل علیہ السلام کو رائے دینے کا اختیار و حق نہیں تو احادیث رسول کی موجودگی میں کسی امام و پیر، فقیر، ولی و مفتی کا قول یا فتویٰ نہیں چل سکتا۔ یہی منہج اہل حدیث اور دعوت و فکر اہل حدیث ہے۔؏ منزل ملی، مراد ملی، مدعا ملا سب کچھ ملا، مجھ کو تیرا صلی اللہ علیہ وسلم نقش پا ملا (6) دین کتاب وسنت کا نام ہے: دین اسلام قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے۔ اور یہ دونوں وحی الٰہی ہیں ۔ علمائے امت نے وحی کی دو قسیں وحی متلو (قرآن) جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اور وحی غیر متلو (سنت) جس کی تلاوت نہیں کی جاتی بیان کی ہیں ۔ تنہا قرآن مجید امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کی راہنمائی اور لوگوں کی دینی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، اسی لیے اللہ رب العزت نے ہادیٔ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو عملی نمونہ کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا فرمایا: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ﴾ (الاحزاب : 21) ’’تحقیق تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک عمدہ نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال، افعال، احوال میں ، اپنی امت مرحومہ کے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔ امت کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات آپ کی ہدایت کی روشنی میں مرتب کرنا ہوں گے اور آپ کی اتباع و اطاعت ظاہراً و باطناً واجب ہے۔ رسول برحق کی اتباع کے بغیر نہ بندہ مسلمان ہے اور نہ ہی محبت الٰہی کا حق دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے احادیث کو حرز جان بنانا لازم ہے۔یہی دین، یہی ایمان اور یہی اسلام ہے۔ ؏ اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
تخریج : مسند البزار : 12/244، رقم الحدیث : 5990۔ (1):… اسلام ، ایمان سے متعلق امور کی توضیح کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 9۔ (2) احسان: اللہ رب العزت نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق فرمایا، عبادت کو احسن انداز سے انجام دینا، اخلاص و للہیت سے کرنا شریعت کا تقاضا ہے۔ جب انسان اللہ کی عبادت کرتے ہوئے یہ تصور پیدا کرے کہ میں اپنے خالق و مالک کو دیکھ رہاہوں ، تو یہ تصور و استحضار اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت، خوف، محبت اور تعظیم کا موجب ہوگا۔ جس کی وجہ سے بندہ علی وجہ الکمال عبادت ادا کرے گا۔ اگر یہ تصور و کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو نسبتاً آسان کیفیت پر توجہ مرکوز کرے کہ اس کا خالق و معبود اس کے ظاہر و باطن، خفیہ واعلانیہ سے مطلع اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے سے بھی انسان کی عبادت میں حسن پیدا ہوگا اور وہ اللہ رب العزت سے قریب تر ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن عبات کی توفیق مانگنے کی دعا بھی سکھائی۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ، اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ اے معاذ میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھنا: ’’اَللّٰهُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ‘‘ ’’اے اللہ! مجھے اپنا ذکر و شکر ادا کرنے اور اپنی اچھی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘( سنن ابي داؤد، الوتر، باب في الاستغفار : 1522، سنن نسائي، السهو، باب : 1304، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) (4) قیامت کب آئے گی؟ جبریل امین نے قیامت کے قائم ہونے سے متعلق پوچھا کہ کب ہوگی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مسؤل سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘ قیامت کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے۔ کوئی مخلوق وقوع قیامت کے وقت سے آگاہ نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الاعراف : 187) ’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ، اس کا قیام کب ہوگا؟ آپ کہہ دیجئے اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری واقع ہوتی ہے۔ تم پر اچانک ہی آئے گی، آپ سے پوچھتے ہیں ، جیسے آپ اس کے بارے میں خوب تحقیق کرنے والے ہیں ، کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘ ایک جگہ پر فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمان : 34) ’’یقینا قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔‘‘ آئے روز بہت سارے لوگ اپنے خود ساختہ حساب و کتاب کی روشنی میں دنیا کے فنا اور وقوع قیامت سے متعلق دعوت کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے ایسے دعوے بے وقعت ہیں ایسے دعویداروں کی دل اور زبان سے تردید و تکذیب لازم ہے۔ کیونکہ جب تمام انبیاء کے سردار اور تمام فرشتوں سے ا فضل و برتر ہستیوں کو وقوع قیامت کاعلم نہیں تو کسی دوسرے شخص کو کیسے ہو سکتا ہے۔ (4) علامات قیامت: علامات قیامت سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کا ظاہر قیامت کے قریب ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان علامات کی علماء نے مختلف انداز سے دو قسموں میں تقسیم کی، بعض نے علامات عامہ اور علامات خاصہ۔ بعض نے علامات قریبہ اور علامات بعیدہ جبکہ بعض علماء نے علامات صغریٰ و کبریٰ کے ساتھ ان کی تقسیم فرمائی ہے۔ حدیث میں ایک علامت کا ذکر ہوا ہے کہ ننگے بدن، ننگے پاؤں والے لوگ ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔‘‘ اس سے مراد فقراء، معاشی طور پر تنگدست، مویشی چرا کر گزر بسر کرنے والے افراد کے اچانک حالات کا تبدیل ہو جانا ہے کہ وہ بڑی بڑی بلڈنگوں ، پلازوں کے مالک بن جائیں گے اور ایک دوسرے سے اونچی عمارتیں بنانے میں مسابقت اور فخر کریں گے۔ اہل علم کے نزدیک یہ علامت فی زمانہ واقع ہو چکی ہے کہ عمارتوں کے ذریعے یہ سلسلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ (5) جبریل علیہ السلام سائل اورمتعلّم: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں انسانی شکل کے اندر لوگوں کے درمیان بطور سائل اور متعلّم آئے۔ جس سے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کے سامنے بطور معلم و مفتی دینی امور پر بات کرنے کا اختیار فقط محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔لہٰذا پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دینی امور میں جب جبریل علیہ السلام کو رائے دینے کا اختیار و حق نہیں تو احادیث رسول کی موجودگی میں کسی امام و پیر، فقیر، ولی و مفتی کا قول یا فتویٰ نہیں چل سکتا۔ یہی منہج اہل حدیث اور دعوت و فکر اہل حدیث ہے۔؏ منزل ملی، مراد ملی، مدعا ملا سب کچھ ملا، مجھ کو تیرا صلی اللہ علیہ وسلم نقش پا ملا (6) دین کتاب وسنت کا نام ہے: دین اسلام قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے۔ اور یہ دونوں وحی الٰہی ہیں ۔ علمائے امت نے وحی کی دو قسیں وحی متلو (قرآن) جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اور وحی غیر متلو (سنت) جس کی تلاوت نہیں کی جاتی بیان کی ہیں ۔ تنہا قرآن مجید امت محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام کی راہنمائی اور لوگوں کی دینی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، اسی لیے اللہ رب العزت نے ہادیٔ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو عملی نمونہ کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا فرمایا: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ﴾ (الاحزاب : 21) ’’تحقیق تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک عمدہ نمونہ ہے اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال، افعال، احوال میں ، اپنی امت مرحومہ کے لیے بہترین نمونہ ہیں ۔ امت کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات آپ کی ہدایت کی روشنی میں مرتب کرنا ہوں گے اور آپ کی اتباع و اطاعت ظاہراً و باطناً واجب ہے۔ رسول برحق کی اتباع کے بغیر نہ بندہ مسلمان ہے اور نہ ہی محبت الٰہی کا حق دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے احادیث کو حرز جان بنانا لازم ہے۔یہی دین، یہی ایمان اور یہی اسلام ہے۔ ؏ اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن