مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 70

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْخَزَّازُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قُعَيْسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَا يَرِدُ عَلَى الْحَوْضِ ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَى الْحَوْضِ»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 70

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد امراء ہوں گے جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر تعاون کیا وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں ا س سے ہوں اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آسکے گا اور جس نے ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق نہ کی اور ان کے ظلم پر ان سے تعاون نہ کیا تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے حوض پرآئے گا۔‘‘
تشریح : (1) نیکی و خیر میں معاونت اور شر میں عدم تعاون: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدہ : 2) ’’اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ درج بالا آیت کی تفسیر کے تحت مفسرین رقم طراز ہیں : ’’ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور نہ کرنے کے لیے ایک اصول مقرر فرما دیا ہے جس سے اسلامی معاشرے میں برائی کا سدباب ہو سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہو میں اس کی مدد کروں گا لیکن اگر وہ ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کس طرح کروں ؟ فرمایا: ’’اس وقت اس کی مدد یہ ہے کہ اپنے ظلم سے روکو۔‘‘( صحیح بخاري، الاکراه، باب یمین الرجل… الخ، رقم : 6952، صحیح مسلم، رقم : 2584، تفسیر القرآن : 1/446۔) (2) لیس منا سے مراد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے گناہوں کے مرتکبین سے متعلق ’’لیس منا‘‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے، جس کا لفظی معنی ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ ہے اب اس سے مراد اور مقصود کیا، اس کی توضیح چند درجہ ذیل علماء کی صراحت سے ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لَیْسَ مِنَّا أَيْ مِنْ أَهْلِ سُنَّتِنَا وَطَرِیْقَتِنَا وَلَیْسَ الْمُرَادُ بِهٖ اِخْرَاجُهٗ عَنِ الدَّیْنِ‘‘(فتح الباري : 2/81۔) ’’لیس منا‘‘ سے مراد وہ ہمارے راستے اور طریقے پر نہیں اس سے یہ مقصود نہیں کہ وہ دین سے خارج ہے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل علم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’لیس منا‘‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمارے طریقے یا ہمارے ادب پر نہیں ۔‘‘( سنن ترمذي، تحت الحدیث : 921۔) ’’لیس منا‘‘ کا لفظ احادیث میں زجر و توبیخ کے لیے استعمال ہوا ہے اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ ایسا بندہ دین اسلام سے خارج یا کافر و غیر مسلم ہے۔ (3) حکمرانوں سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 27، 58، 45۔
تخریج : مسند احمد : 191/5، رقم الحدیث : 5702، وقال احمد شاکر : اسناده صحیح، مسند البزار : 12/230، رقم الحدیث : 5950، مجمع الزوائد : 5/246، رقم الحدیث : 9262، سنن ترمذي، السفر، باب ما جاء في فضل الصلاة،رقم الحدیث : 614، ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں ابراہیم بن قعیس ہے اسے ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے، لیکن ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن غریب‘‘ اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1) نیکی و خیر میں معاونت اور شر میں عدم تعاون: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدہ : 2) ’’اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ درج بالا آیت کی تفسیر کے تحت مفسرین رقم طراز ہیں : ’’ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور نہ کرنے کے لیے ایک اصول مقرر فرما دیا ہے جس سے اسلامی معاشرے میں برائی کا سدباب ہو سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہو میں اس کی مدد کروں گا لیکن اگر وہ ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کس طرح کروں ؟ فرمایا: ’’اس وقت اس کی مدد یہ ہے کہ اپنے ظلم سے روکو۔‘‘( صحیح بخاري، الاکراه، باب یمین الرجل… الخ، رقم : 6952، صحیح مسلم، رقم : 2584، تفسیر القرآن : 1/446۔) (2) لیس منا سے مراد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے گناہوں کے مرتکبین سے متعلق ’’لیس منا‘‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے، جس کا لفظی معنی ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ ہے اب اس سے مراد اور مقصود کیا، اس کی توضیح چند درجہ ذیل علماء کی صراحت سے ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لَیْسَ مِنَّا أَيْ مِنْ أَهْلِ سُنَّتِنَا وَطَرِیْقَتِنَا وَلَیْسَ الْمُرَادُ بِهٖ اِخْرَاجُهٗ عَنِ الدَّیْنِ‘‘(فتح الباري : 2/81۔) ’’لیس منا‘‘ سے مراد وہ ہمارے راستے اور طریقے پر نہیں اس سے یہ مقصود نہیں کہ وہ دین سے خارج ہے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل علم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’لیس منا‘‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمارے طریقے یا ہمارے ادب پر نہیں ۔‘‘( سنن ترمذي، تحت الحدیث : 921۔) ’’لیس منا‘‘ کا لفظ احادیث میں زجر و توبیخ کے لیے استعمال ہوا ہے اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ ایسا بندہ دین اسلام سے خارج یا کافر و غیر مسلم ہے۔ (3) حکمرانوں سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھئے فوائد حدیث نمبر 27، 58، 45۔