مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 7

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَّيَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ: أَنْبَأَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَةَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا»

ترجمہ مسند عبد اللہ بن عمر - حدیث 7

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’پھل کو نہ بیچو حتی کہ اس کی صلاحیت (پختگی) ظاہر ہو جائے۔‘‘
تشریح : (1) تجارت اور اس کی فضیلت: تجارت ایک باوقار پیشہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل از نبوت اس پیشہ سے منسلک رہے۔جلیل القدر صحابہ کرام اس سے وابستہ رہے۔ قرآن و سنت میں تجارت کے پیشے سے منسلک ہونے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ‎﴾ (البقرہ : 275) ’’اور اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ شرعی حدود میں رہ کر تجارت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہاں دنیامیں رزق کی فراوانی عطا کرتا ہے، وہاں اخروی سربلندی و وقار سے بھی نوازے گا۔ لین دین میں نرمی کرنے والوں کے حق میں نبی علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَی وَإِذَا اقْتَضَی))( صحیح بخاري، البیوع، باب السهولة والسماحة في الشراء والبیع : 2076۔) ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (2) پھل پکنے سے پہلے بیچنا: ایک مسلمان محنت و مزدوری اور تجارت اس لیے کرتاہے کہ اس کی ضرورت زندگی پوری ہو سکیں اوروہ اپنی کمائی سے احکام الہیہ کے ادا کرنے میں تقویت حاصل کرے۔ لہٰذا مسلمان کو لین دین کے سلسلہ میں شرعی اصول و ضوابط کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ حلال کمائی کرے اور حرام سے بچ سکے۔ وہ بیوع جن سے شریعت نے منع کیا ان میں سے ایک پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کا فروخت کرنا بھی ہے۔اس کی حکمت یہ ہے کہ پھل کی خریداری سے خریدار کا مقصود اس سے فائدہ اٹھانا، اس کو کھانا یا کھانے والوں کو بیچنا ہے۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو تیار ہونے اور پکنے تک اس پر کئی آفتیں آسکتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے بائع اور مشتری میں تنازعات جنم لیں گے۔ اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر شریعت نے ایسی بیع سے منع کر دیا۔ اگرکوئی پھل کچا استعمال ہو تا ہو تو اس کی بیع پکنے سے پہلے جائز ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کچے آم اچار اور چٹنی وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بعض پھلوں کو مصالحہ لگا کر پکایا جاتا ہے، لہٰذا ایسے پھلوں کی پکنے سے قبل بیع درست ہے۔ کیونکہ وہ آفت سے محفوظ ہو چکے ہوتے ہیں ۔
تخریج : صحیح بخاري، البیوع، باب بیع المزابنة، رقم الحدیث : 2183، صحیح مسلم، البیوع، باب النهی عن بیع الثمار قبل بدو صلاحها، رقم الحدیث : 1534، سالم عن ابن عمر۔ (1) تجارت اور اس کی فضیلت: تجارت ایک باوقار پیشہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل از نبوت اس پیشہ سے منسلک رہے۔جلیل القدر صحابہ کرام اس سے وابستہ رہے۔ قرآن و سنت میں تجارت کے پیشے سے منسلک ہونے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ‎﴾ (البقرہ : 275) ’’اور اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘ شرعی حدود میں رہ کر تجارت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہاں دنیامیں رزق کی فراوانی عطا کرتا ہے، وہاں اخروی سربلندی و وقار سے بھی نوازے گا۔ لین دین میں نرمی کرنے والوں کے حق میں نبی علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَی وَإِذَا اقْتَضَی))( صحیح بخاري، البیوع، باب السهولة والسماحة في الشراء والبیع : 2076۔) ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (2) پھل پکنے سے پہلے بیچنا: ایک مسلمان محنت و مزدوری اور تجارت اس لیے کرتاہے کہ اس کی ضرورت زندگی پوری ہو سکیں اوروہ اپنی کمائی سے احکام الہیہ کے ادا کرنے میں تقویت حاصل کرے۔ لہٰذا مسلمان کو لین دین کے سلسلہ میں شرعی اصول و ضوابط کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ حلال کمائی کرے اور حرام سے بچ سکے۔ وہ بیوع جن سے شریعت نے منع کیا ان میں سے ایک پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کا فروخت کرنا بھی ہے۔اس کی حکمت یہ ہے کہ پھل کی خریداری سے خریدار کا مقصود اس سے فائدہ اٹھانا، اس کو کھانا یا کھانے والوں کو بیچنا ہے۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو تیار ہونے اور پکنے تک اس پر کئی آفتیں آسکتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے بائع اور مشتری میں تنازعات جنم لیں گے۔ اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر شریعت نے ایسی بیع سے منع کر دیا۔ اگرکوئی پھل کچا استعمال ہو تا ہو تو اس کی بیع پکنے سے پہلے جائز ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کچے آم اچار اور چٹنی وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بعض پھلوں کو مصالحہ لگا کر پکایا جاتا ہے، لہٰذا ایسے پھلوں کی پکنے سے قبل بیع درست ہے۔ کیونکہ وہ آفت سے محفوظ ہو چکے ہوتے ہیں ۔