كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو رَزِينٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ حَاجِبِ سُلَيْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَكَّتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا» ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْعِرَاقُ وَمِصْرُ؟ فَقَالَ: «هُنَاكَ يَنْبُتُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، وَثَمَّ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ»
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مکہ میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت فرما اور ہمارے لیے یمن میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے صاع میں برکت پیدا فرما اور ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت پیدا فرما۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!عراق اور مصر؟ تو آپ نے فرمایا: ’’وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اوروہاں زلزلے اورفتنے ہیں ۔‘‘
تشریح :
(1) مکہ کی فضیلت:
اللہ رب العزت نے مکہ مکرمہ کو بڑی عظمتوں سے نوازا۔ اس کو بلد الامین قرار دیا ۔ اس شہر کے امن و امان کی خاطر ابراہیم علیہ السلام کی مانگی ہوئی دعا کو قبولیت نصیب فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
((إِنَّ مَکَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ یُحَرِّمْهَا النَّاسُ))( صحیح بخاري، العلم، باب لیبلغ العلم الشاهد الغائب : 104، صحیح مسلم، الحج، باب تحریم مکة وصیدها : 1354۔)
’’یقینا مکہ کو اللہ رب العزت نے حرمت و عزت والا قرار دیا،اس کو لوگوں نے حرمت والا نہیں بنایا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کے بسائے ہوئے شہر سے انتہائی عقیدت و محبت تھی، مکہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے۔ آپ نے مکہ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
((وَاللّٰهِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰهِ إِلَی اللّٰهِ وَلَوْلَا أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ))( سنن ترمذي، المناقب، باب في فضل مکة : 3925، سنن ابن ماجة ، المناسك، باب فضل مکة : 3108، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمین میں سے اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سرزمین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘
(2) مدینہ کی فضیلت:
مکہ مکرمہ کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں مانگیں تومدینہ اور اہل مدینہ کے لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعائیں کیں ، جس طرح مکہ حرمت وعزت اور شرف والا ہے اسی طرح مدینہ بھی ہے۔ مدینہ اہل ایمان کا مرکز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ الْإِیمَانَ لَیَأْرِزُ إِلَی الْمَدِینَةِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّةُ إِلَی جُحْرِهَا))( صحیح بخاري، باب الایمان یأرز الی المدینة : 1876، صحیح مسلم، الایمان، باب الاسلام بدأَ غریباً : 147۔)
’’(قیامت کے قریب) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آجاتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الْمَدِینَةُ کَالْکِیرِ تَنْفِی خَبَثَهَا وَیَنْصَعُ طِیْبَهَا))( صحیح بخاري، الاحکام، باب من بایع ثم استقال البیعة : 7211، صحیح مسلم، الحج، باب المدینة تنفي شرارها : 1383۔)
’’مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اور خالص مال رکھ لیتا ہے۔‘‘
اہل ایمان کے لیے مدینہ کی موت بھی باعث سعادت ہے، اللہ رب العزت نصیب کرے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَمُوتَ بِالْمَدِینَةِ فَلْیَمُتْ بِهَا فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ یَمُوتُ بِهَا))( سنن ترمذي، المناقب، باب فضل مدینة : 3917، سنن ابن ماجة ، المناسك، باب فضل المدینة : 3112، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’جو مدینہ میں فوت ہوسکتا ہو تو اسے چاہیے مدینہ میں فوت ہو کیونکہ جو وہاں فوت ہو گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا۔‘‘
(3) شام کی فضیلت:
اللہ رب العزت نے زمین کے بعض قطعات کو خاص خیر و برکات سے نواز رکھا ہے جو دیگر قطعات اراضی کو حاصل نہیں شام بھی انہیں خیر و برکت والی زمینوں میں سے ہے۔ فی زمانہ اس شام سے مراد شام، اردن، فلسطین، لبنان وغیرہ ہیں جو عہد نبوی میں تجارت کے اہم ترین مراکز میں سے تھے، بعد ازاں اسلامی فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے زیر اثر آئے۔
(4) یمن کی فضیلت:
یمن اور اہل یمن کے بھی احادیث میں فضائل بیان ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دو بار اشارہ کیا اور فرمایا: ’’ایمان (برکتیں ) یہاں ہیں ۔‘‘( صحیح بخاري، الطلاق، باب اللعان : 5303، صحیح مسلم، الایمان، باب فضل اهل الیمن : 51۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اٰتَاکُمْ اَهْلُ الْیَمَنِ هُمْ اَرَقُّ اَفْئِدَةً وَاَلْیَنُ قُلُوْبًا، اَلْاِیْمَانٍ یَمَانٍ، وَالْحِکْمَهُ یَمَانِیَّةٌ))( صحیح بخاري، الغازي، باب قدوم الاشعریین واهل الیمن : 4388، صحیح مسلم، الایمان، باب فضل اهل الیمن : 52۔)
’’تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں ۔ ان کے دلوں کے پردے باریک ہیں اور دل نرم ہوتے ہیں ۔ ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن والوں کی ہے۔‘‘
(5) مدینہ منورہ کی برکت:
مدینہ منورہ شاداب علاقہ تھا یہاں کے زیادہ تر باشندے زراعت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ چنانچہ کھجورں کی کاشت ہوتی، انگوروں کے باغات تھے۔ عہدنبوی میں زراعت کے پیشہ نے خوب ترقی کی، بہت سارے مہاجرین نے بھی زراعت کے پیشہ کو اختیار کیا۔ یہودیوں کے مدینہ سے اخراج کے بعد مزید بہت ساری زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں ۔
زراعت کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ تجارت تھا تجارتی سفر کا رخ شام ، یمن وغیرہ کی طرف ہوتا۔ یہ سفرعموماً ان دنوں ہوتے جن میں زراعت کی طرف سے اہل مدینہ کو فرصت ملتی۔ مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کی اکثریت چونکہ تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھا اس لیے اس میں مزید بہتری آئی۔ مدینہ کی پیداوار دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتی اور دوسرے علاقوں کی مصنوعات مدینہ کے بازاروں میں پہنچتیں ۔
زبان نبوت سے نکلنے والی دعاؤں کی وجہ سے زراعت اور تجارت میں خوب خیر و برکت پیدا ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماپ تول کے پیمانوں میں برکت کی دعامانگی:
((اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِینَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَکَّةَ مِنَ الْبَرَکَةِ))( صحیح بخاري، رقم : 1885، صحیح مسلم، رقم : 1369۔)
’’اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت دی ہے، مدینہ میں اس سے دگنی برکت پیدا فرما۔‘‘
جیسی نبوی دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل ہوا اور اہل مدینہ کو خیر کثیر حاصل ہوئی اور ہر طرف برکات کا نزول ہونے لگا۔
(4) نجد عراق:
ہمارے معاشرے میں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں کی جاتی ہیں اور نجد عراق سے متعلق احادیث سے نجد حجاز مراد لے کر شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی توحید و سنت کے احیاء پرمبنی اصلاحی تحریک کو فتنہ قرار دے کر ان سے اور ان کی تحریک کے وارث علماء سے بدظن کرنے کی پرزور کوشش ہوتی ہے اور محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو مصلح اور داعی کتاب و سنت سمجھنے والے احباب کو نجدی ،وہابی سے مطعون کرنے کی سعی مذموم کی جاتی ہے۔ حالانکہ احادیث میں جس نجد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کی آماجگاہ قرار دیا اور جس سے متعلق شیطان کے سینگ طلوع ہونے کی پیش گوئی فرمائی، وہ نجد عراق ہے۔ اسلامی تاریخ کا سرسری مطالعہ رکھنے والا فرد بھی یہ جانتا ہے کہ عراق اور اس کے گرد و نواح فتنوں کے مراکز رہے ، اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہیں سے وہ گروہ نکلے جنہوں نے مسلمانوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کیا، اہل اسلام میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا وہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی۔ یہی واقعہ جنگ جمل، جنگ صفین اور دیگر بے شمار فتن کا سبب تھا۔ یہ سارے معاملات مدینہ سے مشرق کی جانب سے اٹھے پھر خوارج کا ظہور بھی نجد عراق اور اس کے نواحی علاقوں سے ہوا۔
(7) شیطان کے سینگ:
مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ’’قَرْنُ الشَّیْطَانِ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’یَخْرُجُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ اَيْ حِزْبُهٗ وَاَهْلُ وَقْتِهٖ وَزَمَانِهٖ وَاَعْوَانُهٗ، ذِکَرَهٗ السُّیُوطِيُّ، وَقِیْلَ: یَحْتَمِلْ اَنْ یُّرِیْدَ بِالْقَرْنِ قُوَّةُ الشَّیْطَانِ، وَمَا یَسْتَعِیْنُ بِهٖ عَلَی الْاِضْلَالِ‘‘(تحفه الاحوذي : 4/381۔)
’’علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا وقت، زمانہ اورا س کے معاون افراد ہیں ۔ ایک قول کے مطابق سینگ سے مراد شیطان کی طاقت اور گمراہی کے لیے اس کے ایجاد کردہ مختلف طریقے ہیں جن سے وہ مدد لیتا ہے۔‘‘
تخریج :
حلیة الاولیاء : 6/133، عن سالم عن ابیه، مجمع الزوائد : 3/305، رقم الحدیث : 5815، السلسلة الصحیحه: 5/302، رقم الحدیث : 2246۔
(1) مکہ کی فضیلت:
اللہ رب العزت نے مکہ مکرمہ کو بڑی عظمتوں سے نوازا۔ اس کو بلد الامین قرار دیا ۔ اس شہر کے امن و امان کی خاطر ابراہیم علیہ السلام کی مانگی ہوئی دعا کو قبولیت نصیب فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
((إِنَّ مَکَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ یُحَرِّمْهَا النَّاسُ))( صحیح بخاري، العلم، باب لیبلغ العلم الشاهد الغائب : 104، صحیح مسلم، الحج، باب تحریم مکة وصیدها : 1354۔)
’’یقینا مکہ کو اللہ رب العزت نے حرمت و عزت والا قرار دیا،اس کو لوگوں نے حرمت والا نہیں بنایا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کے بسائے ہوئے شہر سے انتہائی عقیدت و محبت تھی، مکہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے۔ آپ نے مکہ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
((وَاللّٰهِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰهِ إِلَی اللّٰهِ وَلَوْلَا أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ))( سنن ترمذي، المناقب، باب في فضل مکة : 3925، سنن ابن ماجة ، المناسك، باب فضل مکة : 3108، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمین میں سے اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سرزمین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘
(2) مدینہ کی فضیلت:
مکہ مکرمہ کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں مانگیں تومدینہ اور اہل مدینہ کے لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں دعائیں کیں ، جس طرح مکہ حرمت وعزت اور شرف والا ہے اسی طرح مدینہ بھی ہے۔ مدینہ اہل ایمان کا مرکز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ الْإِیمَانَ لَیَأْرِزُ إِلَی الْمَدِینَةِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّةُ إِلَی جُحْرِهَا))( صحیح بخاري، باب الایمان یأرز الی المدینة : 1876، صحیح مسلم، الایمان، باب الاسلام بدأَ غریباً : 147۔)
’’(قیامت کے قریب) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آجاتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الْمَدِینَةُ کَالْکِیرِ تَنْفِی خَبَثَهَا وَیَنْصَعُ طِیْبَهَا))( صحیح بخاري، الاحکام، باب من بایع ثم استقال البیعة : 7211، صحیح مسلم، الحج، باب المدینة تنفي شرارها : 1383۔)
’’مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اور خالص مال رکھ لیتا ہے۔‘‘
اہل ایمان کے لیے مدینہ کی موت بھی باعث سعادت ہے، اللہ رب العزت نصیب کرے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَمُوتَ بِالْمَدِینَةِ فَلْیَمُتْ بِهَا فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ یَمُوتُ بِهَا))( سنن ترمذي، المناقب، باب فضل مدینة : 3917، سنن ابن ماجة ، المناسك، باب فضل المدینة : 3112، محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
’’جو مدینہ میں فوت ہوسکتا ہو تو اسے چاہیے مدینہ میں فوت ہو کیونکہ جو وہاں فوت ہو گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا۔‘‘
(3) شام کی فضیلت:
اللہ رب العزت نے زمین کے بعض قطعات کو خاص خیر و برکات سے نواز رکھا ہے جو دیگر قطعات اراضی کو حاصل نہیں شام بھی انہیں خیر و برکت والی زمینوں میں سے ہے۔ فی زمانہ اس شام سے مراد شام، اردن، فلسطین، لبنان وغیرہ ہیں جو عہد نبوی میں تجارت کے اہم ترین مراکز میں سے تھے، بعد ازاں اسلامی فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے زیر اثر آئے۔
(4) یمن کی فضیلت:
یمن اور اہل یمن کے بھی احادیث میں فضائل بیان ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دو بار اشارہ کیا اور فرمایا: ’’ایمان (برکتیں ) یہاں ہیں ۔‘‘( صحیح بخاري، الطلاق، باب اللعان : 5303، صحیح مسلم، الایمان، باب فضل اهل الیمن : 51۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اٰتَاکُمْ اَهْلُ الْیَمَنِ هُمْ اَرَقُّ اَفْئِدَةً وَاَلْیَنُ قُلُوْبًا، اَلْاِیْمَانٍ یَمَانٍ، وَالْحِکْمَهُ یَمَانِیَّةٌ))( صحیح بخاري، الغازي، باب قدوم الاشعریین واهل الیمن : 4388، صحیح مسلم، الایمان، باب فضل اهل الیمن : 52۔)
’’تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں ۔ ان کے دلوں کے پردے باریک ہیں اور دل نرم ہوتے ہیں ۔ ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن والوں کی ہے۔‘‘
(5) مدینہ منورہ کی برکت:
مدینہ منورہ شاداب علاقہ تھا یہاں کے زیادہ تر باشندے زراعت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ چنانچہ کھجورں کی کاشت ہوتی، انگوروں کے باغات تھے۔ عہدنبوی میں زراعت کے پیشہ نے خوب ترقی کی، بہت سارے مہاجرین نے بھی زراعت کے پیشہ کو اختیار کیا۔ یہودیوں کے مدینہ سے اخراج کے بعد مزید بہت ساری زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں ۔
زراعت کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ تجارت تھا تجارتی سفر کا رخ شام ، یمن وغیرہ کی طرف ہوتا۔ یہ سفرعموماً ان دنوں ہوتے جن میں زراعت کی طرف سے اہل مدینہ کو فرصت ملتی۔ مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کی اکثریت چونکہ تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھا اس لیے اس میں مزید بہتری آئی۔ مدینہ کی پیداوار دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتی اور دوسرے علاقوں کی مصنوعات مدینہ کے بازاروں میں پہنچتیں ۔
زبان نبوت سے نکلنے والی دعاؤں کی وجہ سے زراعت اور تجارت میں خوب خیر و برکت پیدا ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماپ تول کے پیمانوں میں برکت کی دعامانگی:
((اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِینَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَکَّةَ مِنَ الْبَرَکَةِ))( صحیح بخاري، رقم : 1885، صحیح مسلم، رقم : 1369۔)
’’اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت دی ہے، مدینہ میں اس سے دگنی برکت پیدا فرما۔‘‘
جیسی نبوی دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل ہوا اور اہل مدینہ کو خیر کثیر حاصل ہوئی اور ہر طرف برکات کا نزول ہونے لگا۔
(4) نجد عراق:
ہمارے معاشرے میں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں کی جاتی ہیں اور نجد عراق سے متعلق احادیث سے نجد حجاز مراد لے کر شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی توحید و سنت کے احیاء پرمبنی اصلاحی تحریک کو فتنہ قرار دے کر ان سے اور ان کی تحریک کے وارث علماء سے بدظن کرنے کی پرزور کوشش ہوتی ہے اور محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو مصلح اور داعی کتاب و سنت سمجھنے والے احباب کو نجدی ،وہابی سے مطعون کرنے کی سعی مذموم کی جاتی ہے۔ حالانکہ احادیث میں جس نجد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کی آماجگاہ قرار دیا اور جس سے متعلق شیطان کے سینگ طلوع ہونے کی پیش گوئی فرمائی، وہ نجد عراق ہے۔ اسلامی تاریخ کا سرسری مطالعہ رکھنے والا فرد بھی یہ جانتا ہے کہ عراق اور اس کے گرد و نواح فتنوں کے مراکز رہے ، اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہیں سے وہ گروہ نکلے جنہوں نے مسلمانوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کیا، اہل اسلام میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا وہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی۔ یہی واقعہ جنگ جمل، جنگ صفین اور دیگر بے شمار فتن کا سبب تھا۔ یہ سارے معاملات مدینہ سے مشرق کی جانب سے اٹھے پھر خوارج کا ظہور بھی نجد عراق اور اس کے نواحی علاقوں سے ہوا۔
(7) شیطان کے سینگ:
مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ’’قَرْنُ الشَّیْطَانِ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’یَخْرُجُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ اَيْ حِزْبُهٗ وَاَهْلُ وَقْتِهٖ وَزَمَانِهٖ وَاَعْوَانُهٗ، ذِکَرَهٗ السُّیُوطِيُّ، وَقِیْلَ: یَحْتَمِلْ اَنْ یُّرِیْدَ بِالْقَرْنِ قُوَّةُ الشَّیْطَانِ، وَمَا یَسْتَعِیْنُ بِهٖ عَلَی الْاِضْلَالِ‘‘(تحفه الاحوذي : 4/381۔)
’’علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا وقت، زمانہ اورا س کے معاون افراد ہیں ۔ ایک قول کے مطابق سینگ سے مراد شیطان کی طاقت اور گمراہی کے لیے اس کے ایجاد کردہ مختلف طریقے ہیں جن سے وہ مدد لیتا ہے۔‘‘